پاکستان کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں پر بحث کرنے والی شاید ہی کوئی کانفرنس یا تقریب اس کے وسیع اور ناقابل استعمال اثاثے یعنی نوجوانوں کی اہمیت تسلیم کئے بغیر اختتام پذیر ہوئی ہو‘ اگرچہ یہ دیکھنا حوصلہ افزأ ہے کہ سرکاری وسائل کی تقسیم میں نوجوانوں کو نظرانداز نہیں کیا جاتا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اور اِس پر قومی بحث ضرور ہونی چاہئے کہ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں نوجوانوں پر مشتمل انسانی وسائل کی ترقی اور اُن کی صلاحیت کو کماحقہ بروئے کار لانے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں؟ نوجوانوں کی ترقی اور نوجوانوں کے لئے مالی وسائل مختص کرنے کا اہم اشارہ تعلیم ہے جو کسی بھی ملک و معاشرے کے لئے انسانی سرمائے کی ترقی کا مرکز ہوتی ہے‘ حال ہی میں، تعلیمی نظام کی مضبوطی کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پاکستان کے چیئرمین نے کہا کہ ”ملک میں وسیع منفی سوچ پائی جاتی ہے اور جب تک ہم اپنی سوچ کو مثبت نہیں کریں گے اُس وقت تک ہمیں اصلاحات کے مثبت نتائج بھی دکھائی نہیں دیں گے۔“ یہ کہتے ہوئے اُنہوں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کی جامعات میں ہونے والی مثبت پیش رفت کا ذکر کیا جن میں یونیورسٹیز گرانٹس کمیشن کی مکمل طور پر آزاد ایچ ای سی میں ساختی تبدیلی اہم ترین ہے۔ اس کے بعد سے، یونیورسٹیوں کی تعداد 51 سے بڑھ کر 244 ہو گئی ہے اور سالانہ تحقیقی اشاعتوں کی تعداد 850 سے بڑھ کر تقریباً چالیس ہزار ہو چکی ہے۔ اِسی طرح جامعات میں صنفی مساوات کے معاملے میں داخلے کا فرق بھی کم ہوا ہے‘ جس میں 48 فیصد خواتین اور 52 فیصد مرد طالب علم ہیں تاہم‘ ان کامیابیوں کے باوجود‘ اعلیٰ تعلیم کے لئے بجٹ کی رکاوٹیں سب سے زیادہ حائل اور اثر انداز ہو رہی ہیں‘ جی ڈی پی کا صرف 0.24 فیصد اعلیٰ تعلیم کے لئے اور مجموعی طور پر تعلیم کے لئے 2 فیصد سے بھی کم مختص کیا جاتا ہے جو قومی ایجنڈے میں تعلیم کو دی جانے والی کم ترین ترجیح کی عکاسی ہے‘ ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری یونیورسٹیاں طلبہ کو جدید معیشت میں مؤثر طریقے سے حصہ لینے اور معاشرتی تبدیلی میں حصہ لینے کے لئے ضروری علم اور مہارت سے لیس کر رہی ہیں؟ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یونیورسٹیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم تک مجموعی رسائی کم اور منقسم ہے‘ جس میں واضح مثال علاقائی عدم مساوات ہے۔ مختلف کوششوں اور نیک نیتی کے باوجود پاکستان کی تمام جامعات اور ڈگری کالجوں میں کل داخلے تقریباً چوبیس لاکھ ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ تمام تعلیمی سطحوں پر موجودہ داخلے تقریباً 5 کروڑ 30 لاکھ ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم میں داخلے صرف 4.5 فیصد ہیں۔ باالفاظ دیگر اگر 100 طالب علم پرائمری تعلیم میں داخل ہوتے ہیں تو اُن میں سے صرف پانچ یونیورسٹی سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں!اعلیٰ تعلیم میں مجموعی طور پر شرکت کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے۔ بھارت کے مقابلے میں، وسیع آبادیاتی اختلافات کے باوجود، پاکستان تعلیم میں نمایاں طور پر بھارت سے پیچھے ہے۔ آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (اے آئی ایس ایچ ای) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت میں 58 ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں اور بھارت میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اعلیٰ تعلیم کا نظام رائج ہے‘ سال 2021-22ء کے دوران تقریباً 2400 اعلیٰ تعلیمی اداروں کا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں اس وقت 4 کروڑ 34 لاکھ سے زیادہ طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی تعداد میں سالانہ 20 لاکھ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اِن میں 79 فیصد طلبہ انڈر گریجویٹ جبکہ 12 فیصد پوسٹ گریجویٹ (ماسٹر ڈگریاں) حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ترقی سست رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ جب ہم معیاری تعلیم کی بات کرتے ہیں تب بھی پاکستان عالمی سطح پر اپنی پہچان قائم نہیں کر سکا ہے بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کی ضرورت ہے اور ایسے سماجی سائنسدان پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ملک کو درپیش انواع و اقسام کے بحرانوں سے باہر نکالیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں غربت‘ انتہا پسندی‘ جرائم اور مایوسی جیسے سماجی مسائل نازک سطح پر پہنچ چکے ہیں‘ یونیورسٹیوں کو حقیقی علمی مراکز میں تبدیل کرنے کے لئے ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو نہ صرف انفرادی کامیابی بلکہ سماجی ترقی کے عزم کی ترغیب دیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طالب علموں کی منزل ہوا کرتا تھا۔ ملائشیا جیسے ممالک کے طالب علم، جو امریکہ یا یورپ میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے، اکثر پاکستان کا انتخاب کرتے تھے۔ ہمیں ایک خوشحال اور فکری طور پر متحرک قوم کی ترقی کے لئے مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اصغر سومرو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)