بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ بھارتی فوج کی علاقائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرینگر میں غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے اور بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیری عوام کو محکوم بنایا گیا ہے جو دہائیوں پر محیط بدامنی کا ایک نیا باب (آغاز) ثابت ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور پورے پاکستان میں رہنے والے ہر سال، امید کی کہانیوں، آزادی کے مطالبات اور مستقبل کی امنگوں کے ساتھ زندہ ہیں اور یقیناً وہ دن قریب ہے جب کشمیر بھارتی قبضے کی زنجیروں سے آزاد ہوگا۔ پانچ اگست، دوہزاراُنیس کو حالات بدسے بدتر ہو گئے۔ بھارتی حکومت نے جب آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر دیا، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور بھارتی آئین کے بڑے فریم ورک میں شامل کر لیا، جس کا مطلب محض ایک علامتی اختتام کا آغاز تھا۔ ایک مستحکم مستقبل اور باوقار آزادی کے ساتھ حال کی معمولی سی امید اس سے جاتی رہی۔ محکومی کا ایک برفانی تودہ اس خبر کے ساتھ تھا جس نے کشمیر کو تہہ دل سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انسانی حقوق کا جوہر‘ وہ مقدس دھاگے جو انسانیت کے تانے بانے بناتے ہیں‘ ایک ایک کر کے کھلنے لگے۔ فضا خوف سے بھری ہوئی تھی کیونکہ اختلافی آوازوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ خاموشی کی گونج نے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ آزادی کی جدوجہد نہ صرف قانونی جنگ ہے بلکہ ایک داخلی جنگ بھی ہے، جہاں امید کو جبر کی غیر متزلزل ہواؤں سے بچانا ہوگا۔ جب وادی اور پورے پاکستان میں ہلچل مچ گئی تو وادی کے خاندان ایک نئے دور کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے جمع ہوئے جس میں انسانی حقوق کا جائزہ لیا گیا۔ پاکستان، جس کی جڑیں کشمیر کاز سے جڑی ہوئی ہیں، بنیادی حقوق کی اس کھلی خلاف ورزی کا منصفانہ راستہ (حل) تلاش کرنا چاہتا ہے۔تاریخی تناؤ اور حل طلب تنازعات کے سائے میں ہمسایہ ممالک کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ بات چیت اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں مضمر ہے۔ پاکستان کشمیری کاز کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے اپنی سفارتی کوششیں کر رہا ہے تاہم اِن کوششوں میں اضافے کی ضرورت ہے‘ پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیری عوام کے لئے پرامن حل اور حق خودارادیت پر زور دیتا ہے جس سے عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے لئے آگاہی اور دباؤ بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ عمل وزارت خارجہ کے ساتھ پارلیمانی کمیٹیوں کے ذریعہ بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی بحث میں انہیں سہارا دینے اور اُن کی آواز کو بلند کرنے کے لئے اضافی کوششیں کی جانی چاہئے۔ پاکستان اور بین الاقوامی تنظیموں دونوں کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کی نگرانی اور رپورٹنگ کو ترجیح بنانا چاہئے۔ انسانی امداد اور شہری آزادیوں کے تحفظ کی وکالت کشمیری عوام کے مصائب کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات شروع کرنے سے مقبوضہ کشمیر پر بات چیت کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ مذاکرات کے لئے ایک فریم ورک قائم کرنا جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر کشمیری شامل ہوں، زیادہ تعمیری ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات متعدد ذرائع سے کشمیر کاز کو پیش کرنے کے لئے قدم اٹھا سکتی ہے۔ ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینا متنوع برادریوں کو مشترکہ تجربات اور باہمی تفہیم کے ذریعے جوڑتا ہے۔ ایک ایسا ذریعہ جس کے وساطت سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جاسکتا ہے اور اِسے بھارت کی ڈیموگرافی سے متعلق بھی بنایا جاسکتا ہے۔ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ وفود کا تبادلہ ایک دوسرے کی تاریخ، فنون لطیفہ اور روایات کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور اِس سے غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تعلقات کی مضبوطی سے اور ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ بہتر جاننے سے اعتماد بحال ہوتا ہے، جس سے تعاون اور پرامن بقائے باہمی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔پاکستان کشمیر کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتا ہے لیکن وہ علاقائی استحکام اور اجتماعی تعاون کی ضرورت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے اِس بحث کو عالمی سطح پر لے جائے۔ زیر بحث طریقوں پر عمل کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے مزید تعمیری حل کے موجود امکانات سے استفادہ ہونا چاہئے۔ بالآخر مسئلہ کشمیر کا پرامن حل سے کم کسی بھی حل کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے، ایک ایسا حل جس میں کشمیریوں کو حق خودارادیت ملے جو نہ صرف پاکستان اور بھارت کے لئے بھی سودمند ثابت ہوگا بلکہ وسیع تر علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے قیام میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عائشہ عارف خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)