کسی بھی ملک کے آئین میں ترمیم کرنا اس ملک کے پارلیمنٹ کا حق اور اختیار ہے یہ حق اور یہ اختیار اس وقت تما شہ بن جا تا ہے جب اراکین پارلیمنٹ پراسرار طور پر غائب ہوئے یا سو دے بازی کا چر چا کیا جا تا ہے ایسے حا لات میں مہینوں تک ڈرا مائی صورت حال چلتی رہتی ہے ذرائع ابلا غ میں ایسی خبریں گردش کر تی ہیں جیسی خبریں مچھلی بازار یا مویشی منڈی سے آتی رہتی ہیں وطن عزیز کے آئین میں 26ویں ترمیم کی منظوری کے لئے ایسا ہی ما حول بنا یا گیا ترمیم میں کوئی بڑی بات نہیں تھی دینی مدارس کے لئے رجسٹریشن، آڈٹ اور انگریزی تعلیم لا زمی ہو گی، معیشت کو سود سے پا ک کرنے کا کام 4سال کے لئے اور چیف جسٹس کے تقرر کے لئے جو ڈیشل کمیشن کی سفارش ختم کرکے دفعہ پارلیمانی کمیٹی کے میٹھے کیپسول میں ڈال کر لائی گئی‘ کسی ستم ظریف نے اس پر کھو دا پہاڑ نکلا چوہا کا فقرہ بھی چست کیا ہے اور اس طرح کی فقرہ بازی ان افواہوں کی وجہ سے ہو نے لگی جوا فوا ہیں سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھیں‘انگریزی کے ایک ڈرامے کا کر دار اپنے زور دار مکا لمے کے اندر کہتا ہے اگر چہ یہ جنو نیت ہے تا ہم اس میں ایک سلیقہ مو جود ہے اور مکا لمہ لکھنے والا کوئی اور نہیں ولیم شیکسپیر ہے‘ جنو نیت میں سلیقہ آجا ئے تو اس کو فرزانگی پر محمول کیا جاتا ہے، کیونکہ سلیقہ اور طریقہ اس کو قابل قبول بنا تا ہے‘ اس کے مقا بلے میں آپ کو ئی اچھا کام بھی غلط طریقے سے کریں گے تو وہ محل نظر ہو گا‘ ہر دیکھنے والا انگلی اٹھائے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے او ر کیوں ہو رہا ہے ہر کام میں قانونی جوا ز کے علا وہ اخلا قی جواز کا بھی خیال رکھا جا تا ہے۔ ایک بار جارج برنارڈ شا سے سوال کیا گیا کہ تاج بر طانیہ کے پاس پارلیمنٹ توڑ نے کا اختیار ہے یا نہیں؟ برنارڈ شا نے کہا بالکل تاج برطانیہ کو اختیار دیا گیا ہے‘ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا اب تک کتنی بار تاج بر طانیہ یعنی باد شاہ یا ملکہ نے بر طانوی پارلیمنٹ کو توڑا ہے؟ بربارڈ شا نے کہا ایک بار بھی نہیں، پو چھا گیا آخر کیوں؟ برنارڈ شاہ نے کہا اگرچہ قانونی جواز ہے مگر اخلا قی جواز نہیں‘گویا اخلا ق آپ کو جواختیار دے وہ قانونی اختیار کے برابر ہوتا ہے اور مہذب قومیں اخلا قی اختیار کو بھی قانونی اختیار کے برابر اہمیت دیتی ہیں اس کی بے شمار مثا لیں امریکہ، جا پا ن، روس اور فرانس کی تاریخ میں بھی ملتی ہیں‘ اسلا می تاریخ میں بھی اخلا قی بر تری کی ان گنت مثا لیں قائم کی گئیں صلیبی جنگوں میں مخا لف جر نیل کا گھوڑا زخمی ہوا تو سلطان صلا ح الدین ایوبی نے اپنا گھوڑا ان کو پیش کیا یہ کام قانون کی کسی کتاب میں نہیں تھا البتہ اخلا قی بر تری کا سنہر ا دستور تھا اور اس کا تعلق شیکسپیر والے سلیقے سے بھی ہے، 26ویں ترمیم کے سلسلے میں جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ مہذب دنیا کو اخلا قی لحا ظ سے قابل قبول نہیں اس وجہ سے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، گارجین اور دیگر اخبارات نے اس پر انگلی اٹھائی‘قانون دانوں کی عالمی مجلس نے بھی سوالات اٹھا ئے‘اقوام متحدہ میں انسا نی حقوق کے ما ہرین نے بھی اس طریقے کو پسند نہیں کیا‘ یہاں تک طریقہ کار اور سلیقے کی باتیں ہوئیں اب ہم آگے بڑھ کر اس کے نتا ئج اور عواقب پر غور کر تے ہیں تو بھیا نک تصویر سامنے آجا تی ہے کل کلا ں اگر کوئی مسو لینی اور سٹا لن جیسے فسطائیت پسند آمر کی حکومت آئی تو یہی قانون وطن کے پرا من شہریوں کے ساتھ ساتھ سیا ستدانوں کے لئے بھی وبال جان بن جا ئے گا‘ رحمن بابا نے بڑے غور‘ فکر اور مشا ہدے کے بعد یہ بات کہی تھی کہ دوسروں کے راستے میں کانٹے نہ بچھا‘ ہوسکتا ہے کبھی اس راستے پر تمہارا بھی گذر ہو‘فارسی میں مشہور مقولہ ہے جو دوسرے کے لئے کنواں کھو د تا ہے خود ہی اس میں گر جاتا ہے‘وطن عزیز میں قانون کی حکمرا نی کا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہو گا جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں اپنے آپ کو آئین کے تابع کرنے سے باز آجائینگے اگر قانون دانوں کی ایک کمیٹی بیٹھ کر آٹھو یں تر میم سے لیکر چھبیسویں ترمیم تک تما م ترامیم کا جا ئزہ لے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آئیگی کہ ملک کے مفاد میں اور قانون کی حکمرانی کے لئے صرف 7ترامیم ہوئی تھیں‘اس کے بعد ہر ایک ترمیم حکمران کی سہو لت کو سامنے رکھ کر کی گئی۔