خیبر پختونخوا کی چار نئی بستیوں میں گھومنے پھرنے کا اتفاق ہو جا ئے تو ہر محب وطن شہری سر پیٹ کر رہ جا تا ہے شہری منصو بہ بندی کے بغیر کس طرح یہ بستی بسائی گئی، انجینر کیوں نہیں بلا یا گیا؟ ٹاؤن پلا ننگ کے ما ہرین کی خد مات کیوں حا صل نہیں کی گئیں؟ پلا ٹوں کی الاٹمنٹ سے پہلے بستی کا نقشہ کیوں نہیں بنا یا گیا؟ نکا سی آب کے لئے نا لیوں اور پیدل چلنے والوں کے لئے دو فٹ کی جگہ کیوں نہیں چھوڑی گئی الاٹیوں پر ٹاون پلا ننگ کے قوانین کی پا بندی کیوں لا زم نہیں کی گئی؟ تجا وزات پر پا بندی کیوں نہیں؟ صو بائی دارالحکومت پشاور کی جدید بستی حیات آباد میں امریکہ سے آئے ہوئے افغا ن شہر ی نے مجھ سے تین نئے سوال پو چھے تو میرا سر دُکھنے لگا، جوا ب نہ ہو تو سر میں در د ہو تا ہے میرے افغا ن دوست نے پو چھا کہ بارش نہیں ہوئی گلی میں اتنا سارا پا نی کیسے جمع ہوا؟ مجھے خا موش دیکھ کر اُس نے پو چھا کیا یہاں ٹاؤن پلا ننگ نہیں ہو تی؟ میرے پا س جوا ب تھا مگر ”نہیں با لکل نہیں“ کہتے ہوئے مجھے شرم آئی اُس نے تیسرا سوال داغ دیا اتنی بڑی رقم یعنی عمر بھر کی جمع پونجی خر چ کر کے گھر تعمیر کرنے والے شہری اس بے قاعدگی پر شور کیوں نہیں مچا تے؟ میں چپ رہا لیکن مجھے اس پر سوچنا پڑا سوچتے ہوئے مجھے نیپال، تھا ئی لینڈ اور ایران کی نئی بستیوں کا بھی خیال آیا، پنجا ب کی نئی بستیوں کا بھی خیال آیا میں نے سو چا اگر خیبر پختونخوا میں افرا دی قوت کی کمی ہے، انجینروں کی کمی ہے، اچھے سر وئیر اور قابل ڈرافٹس مین نہیں ملتے تو پنجاب سے انجینر، ٹاؤن پلا نر اور سر وئیر کیوں نہیں بلا تے؟ نئی ہاؤسنگ سکیمیں لو گوں کو بہتر طرز زند گی والی سہو لیات دینے کے لئے بنتی ہیں اگر نئی ہا ؤسنگ سکیم میں 3کروڑ روپے یا 4کروڑ روپے کا گھر تعمیر کرنے کے بعد بھی ایک کھا تا پیتا شہری کچی آبادی (Slum) کی طرح گندے پا نی کے جو ہڑ سے صبح شام گذر تا ہے تو نئی بستی اور جدید ہاؤسنگ سکیم کا کوئی، فائدہ نہیں اور اس بات کا کسی کو احساس تک نہیں سر دیوں میں الر جی کی بیما ریاں آتی ہیں اور گر میوں میں ڈینگی بخار انہی جو ہڑوں سے پھیلتا ہے اس معا ملے میں سٹینڈرڈ اپرٹینگ پرو سیجر مو جو د ہے اس پرو سیجر (SOP) کے تحت ہر گلی میں نکا سی آب کی سیو ریج لائن ہونا لا زم ہے گلی کی پیو منٹ میں چارحصے ہوتے ہیں درمیان میں 12فٹ سڑک دونوں کنا روں پر سیو ریج کی پکی نا لی، دونوں کنا روں پر نا لی کے ساتھ شو لڈر اور پیدل کا راستہ ان لوا زما ت کے بعد الاٹیوں کے لئے نقشے کے مطا بق گھر کی تعمیر کا قانون، اس قانون کے تحت کوئی الا ٹی گلی کی سڑک سے دروازے تک سیڑھی نہیں بنا سکتا یہ قانون کے تحت جر م ہے اس پر الا ٹی کے خلا ف ایف آئی آر ہوسکتی ہے، قید اور جر ما نے کی سزا ہو سکتی ہے مگر یہاں گنتا کون ہے؟ گلی کے اندر 7فٹ کی سڑک ہوتی ہے نکا سی آب کی کوئی نا لی نہیں ہو تی سڑک کے دونوں طرف الاٹیوں نے گاڑی کے لئے 4فٹ اونچا ڈھلوان اور ڈھلوان کے ساتھ سیڑھیاں بنا کر اپنے گھر کے دروازے تک پہنچا یا ہوا ہے 40گھروں والی گلی میں ہر روز چار الاٹی اپنی مو ٹر یں دھو تے ہیں اور کم ازکم 8الا ٹی اپنے گھروں کے فرش سرف سے دھو کر سارا پا نی گلی میں بہا تے ہیں جو ہر وقت جو ہڑ بنا رہتا ہے اب میں امریکہ پلٹ افغا نی کو کیسے بتا تا کہ ہمارے ملک میں چار چیزوں کی کمی ہے ٹاؤن پلا ننگ اور لینڈ یو ز (Land use) کا کوئی قانون نہیں ہے۔
، کسی ہا ؤسنگ اتھارٹی میں اس شعبے کا ما ہر کبھی بھر تی نہیں ہوا پس منا سب افرا دی قوت کی شدید کمی ہے مو زوں افیسروں کا فقدان ہے، تیسری کمی یہ ہے کہ جن کو پلا ٹ الاٹ ہوتا ہے ان کو اپنی دولت، اپنی کما ئی اور جمع پونجی کی کوئی قدر نہیں انفراسٹرکچر تیار ہونے سے پہلے گھر تعمیر کر تے ہیں اور اپنے حقوق کا مطا لبہ نہیں کر تے چوتھی کمی یہ ہے کہ گھر وں میں رہا ئش اختیار کرنے کے بعد 4کروڑوں روپے لگا نے والا مکین اپنے ارد گرد ما حول کی آلو د گی کو نہیں دیکھتا احتجا ج نہیں کرتا آواز نہیں اٹھا تا ان بنیا دی خا میوں کی وجہ سے جدید رہا ئش سکیم بھی کچی آبادی کا منظر پیش کر تی ہے اور کروڑوں روپے لگا کر گھر بنا نے والا بد بو دار پا نی کے جو ہڑ میں زند گی گذار تا ہے یہ بات ثا بت ہو چکی ہے کہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ 50سال کے اندر کوئی آرکیٹیکٹ یا انجینئر پیدا نہیں ہوا،اکیسویں صدی میں حکومت کو پنجا ب سے مو زوں افرادی قوت لا کر جدید بستیوں کی منصو بہ بندی کر نی چاہئیے۔۔۔۔۔