بھارت کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر حالیہ میزائل حملے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری پر ایک سنگین حملہ ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ رات کی تاریکی میں کیے گئے ان حملوں نے بھارت کی جنگی ذہنیت، غیر ذمہ دارانہ حکمتِ عملی اور بین الاقوامی قوانین سے کھلی بغاوت کو عیاں کر دیا ہے۔ کوٹلی، مظفرآباد، سیالکوٹ، مریدکے، باغ اور بہاولپور جیسے شہری علاقوں میں گرنے والے ان میزائلوں کا ہدف عسکری نہیں بلکہ عام شہری، عبادت گاہیں اور بنیادی انفرا اسٹرکچر تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں چھبیس بے گناہ پاکستانی شہید اور چھیالیس زخمی ہوئے۔ اس جارحیت کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب پاکستانی فضائی حدود سے ستاون بین الاقوامی پروازیں گزر رہی تھیں۔ میزائلوں کا داغا جانا نہ صرف پاکستانی شہریوں بلکہ فضاء میں موجود عالمی مسافروں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ یہ عمل عالمی ہوابازی کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ و بین الاقوامی اداروں کی توجہ کا مستحق ہے۔ یہی نہیں بلکہ ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق، بھارت نے نیلم-جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے کلیدی حصے نوشیڑی ڈیم کو بھی نشانہ بنایا، جو پانی جیسے بنیادی وسائل کے خلاف عسکری جارحیت کے زمرے میں آتا ہے‘ یہ حملہ نہ صرف اشتعال انگیزی ہے بلکہ انسانی حقوق اور جنگی ضوابط کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ ایسے بنیادی ڈھانچوں کو نشانہ بنانا عالمی سطح پر جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان نے ان حملوں کے جواب میں مکمل پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفاعی اقدامات کیے۔ دفاعی ذرائع کے مطابق، پانچ بھارتی جنگی طیارے جن میں رافیل، ایس یو 30ا ور میگ-29شامل تھے، اس وقت مار گرائے گئے جب وہ پاکستانی فضائی حدود میں
دراندازی کر رہے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول کے پار متعدد بھارتی چیک پوسٹس اور ایک انفینٹری بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو بھی مؤثر انداز میں نشانہ بنا کر مکمل طور پر تناہ کر دیا گیا۔ یہ جوابی اقدامات پاکستان کی سرزمین سے کیے گئے، جس کا مقصد صرف جارحیت کا جواب دینا نہیں بلکہ دنیا پر یہ واضح کرنا تھا کہ پاکستان اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اس تمام صورتحال کے بعد وزیراعظم کے زیرِ صدارت قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں تمام سیاسی و عسکری قیادت نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل اکیاون کے مطابق پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ اور معصوم شہریوں کے قتلِ عام کے خلاف، اپنے دفاع میں، اپنی مرضی کے وقت، مقام اور انداز میں جوابی کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مسلح افواج کو مکمل اختیارات تفویض کر دئیے گئے ہیں تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر مزید کاروائیاں کر سکیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے اس مؤقف کو عالمی سطح پر بھی کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھارتی اقدام کو ”شرمناک“قرار دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ خطے میں کشیدگی کو اس نہج تک لانا ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔اسی طرح کچھ اور ملکوں کی طرف سے بھی اظہار خیال کیا گیا ہے‘ یہ بات اب دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے، لیکن کمزور ہرگز نہیں۔ دشمن کو یہ پیغام بھیجا جا چکا ہے کہ اگر اس نے آئندہ ایسی کسی حرکت کا سوچا بھی تو اسے اس سے کہیں زیادہ سخت اور فیصلہ کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان کی افواج مکمل طور پر تیار ہیں، عوام متحد ہیں، اور قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ ملک کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا جواب بھرپور قوت، عزم اور حکمتِ عملی سے دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دشمن کو اگر اب بھی سبق نہ ملا، تو اگلا وار اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دے گا۔ پاکستان کے صبر کو کمزوری سمجھنے کی غلطی بھارت کو مہنگی پڑے گی۔ ہماری خاموشی تدبیر ہے، ہماری طاقت عمل میں ہے۔