جانے کیا لوگ ہیں کیا کہتے ہیں۔۔

پہلے تو ٹی وی کے لائیوو پروگرام ہوتے یا ریکارڈنگ کر کے چلائے جاتے۔ سب میں کورونا کی وجہ سے سماجی فاصلہ بھی رکھا جاتا،جب کسی مہمان کو سٹیج پر بلاتے تو اس سے ہاتھ بھی نہ ملاتے اوردور رہ کر بات کرتے مگر جب پہلی لہر ختم ہوئی اور دوسری لہر نے جنم لیا اس وقت ہر قسم کی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔حالانکہ یہ لہر زیاد ہ خطرناک ہے ۔مگر ا س میں ہمارے پیارے کسی قسم کی احتیاط کو فالو نہیں کر رہے ۔گزشتہ روز ایک ولیمے میں مہمانوںکو دیکھا ۔خوشی کا عالم تھا۔ دھڑا دھڑ ہاتھ ملائے جا رہے تھے۔ گلے ملتے اورایک دوسرے کے اور قریب آتے ۔پھر نہ تو منہ پر کوئی ماسک اورنہ کسی قسم کا کوئی ڈر تھا ۔” کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے“۔میرا خیال ہے کہ کورونا کے وائرس نے تو عوام کو اپنالیاہے ۔ مگر خود پبلک نے اس کے وجود کو خیالی سمجھ کر ٹھکرا دیا ہے ۔پھر اس وبا ءنے اس مسترد کئے جانے کی سزا ہمارے عوام کو روز دینا شروع کر دی ہے ۔مگر اس کو دیکھ کر ہمارے بھائی بند کوئی سبق حاصل نہ کر سکے ۔الٹا کورونا کو خیالی پرندہ قرار دیتے ہیں۔ جس کانام تو کتابوں میں ہے مگر اس کاکوئی وجود نہیں ۔ مگر جب کوئی اس کے ڈنک کا شکار ہوتاہے تو اسے لگ پتا جاتا ہے ۔پھر اگر وہ اس درد ناک تکلیف سے گزر کر صحت کی دنیامیں ابھرتا ہے تو حد درجہ احتیاط کرتا ہے ۔پھر احتیاط بھی اتنی کہ باربار صابن سے ہاتھ دھوئیں گے کیونکہ کسی ایک کے ساتھ ہاتھ ملالو تو جب تک اٹھ کر ہاتھ نہ دھوئیں دل کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ہسپتال کا ہدایات دینے والا عملہ بھی خو داحتیاط نہیں کرتا ۔خود میں نے ان کو تقریبات میں کسی قسم کے ایس او پی کو اختیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔بلکہ حیرانی ہوئی کہ ان میں تو لیبارٹری والے بھی ہیں ۔ اس ولیمے میں نہ تو کسی طب کے ماہر نے کوئی ماسک پہنا تھا اور نہ وہ ہاتھ ملانے میں احتیاط سے کام لیتے تھے۔آپ کسی قسم کا گیدرنگ دیکھ لیں خواہ جینے مرنے کا موقع ہو مگر صاحبانِ علم ودانش کو دیکھیں تو وائرس سے لاپرواہی برت رہے ہوتے ہیں۔پہلے پہل تواحتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔ مگر اب یہ لوگ کووڈ انیس کے ساتھ عادی ہوگئے ہیں۔لوگوں کے دلوں سے ڈر ختم ہو گیا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں مگر وہ جو خود لواحقین میں سے ہیں اپنے مریض کو کورونا کے جبڑوں تلے جاتا دیکھ کر بھی اپنی راہ سیدھی نہ کر پائے۔ ویکسین تو آ گئی ۔لگ بھی رہی ہے ۔ مگر ہم لوگ تو اعتراض برائے اعتراض کر تے ہیں۔ ویکسین پر بھی باتیں بن رہی ہیں ۔کوئی لگوا رہا ہے اور کوئی سرے سے انکار ہی کر تاہے۔خیر ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ کسی کے کانوں میں بس کوئی ایک غلط بات ڈال دو ۔اس کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے۔ ویکسین کے بارے میں نئی نئی باتیں نکل رہی ہیں۔ کوئی اپنوں کی اورکوئی عالمی طاقتوں کی سازش قرار دے رہا ہے۔کہتے ہیں جو یہ ویکسین لگائے گا اس کی سرگرمیاں جو صبح سے شام تک ہیں باہر ملکوں میں ریکارڈنگ پر رکھ دیں گے۔حیرت ہے کہ کیالوگ ہیں اورکیاکہتے ہیں۔پھولوں کو گرادینے والی خزاں کی ہوا کو بادِ بہاری کہنے لگتے ہیں۔پھر بہار کی ہواکو پت جھڑ کا موسم قرار دیتے ہیں۔ ان کے منہ پر کوئی ہاتھ نہیں رکھ سکتا ۔بولیں گے اور خوب اعتراض کریں گے۔نئی سے نئی بات سننے کو ملے گی۔لگتا ہے اب ہم نے اس وبا ءکو قبول بھی یوں کیا ہے کہ اس کے ساتھ یارانہ کر لیا ہے ۔اس کے ہاتھ پر اپنا تن من دھن سب کچھ رکھ دیا ہے ۔میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ حضرات سے جانکاری حاصل کرنے کو بات کروتو خود ان کے منہ پر ماسک نہیں ہوتا اورنہ ہی اس نے کوئی فاصلہ اختیار کیا ہوتا ہے ۔ٹی وی کے مختلف چینلو ںمیں کہیں کسی پروگرام کے اکٹھ میں نہ تو ماسک نظر آئے گا اور نہ انھوں نے کوئی سماجی دوری کو رواج دے رکھاہوتا ہے۔پھر یہ لوگ اس اصول پرچلتے ہیں کہ ” دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے“۔ جن کوکورونا نے زد پہنچائی ہے ان کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔کتنے تو چھوٹا موٹاکورونا گزار چکے ہوتے ہیں۔اس طرح کہ خود ان کو بھی علم نہیں ہوپاتا۔ یہ تو جب کورونا کسی کو زیادہ برے طریقے سے گھیرتا ہے ۔پھر اس کو جب چارپائی کا زندانی کر دیتا ہے تب جاکر اس وائرس پر یقین آتا ہے۔ہمارے پیاروں کو خدا سمجھ دے ۔جن میں سے تو کچھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ پھر کچھ تو ابھی تک اس بیماری کے بستر پر دراز ہیں۔ کیونکہ دوبارہ کروا یا گیا ان کا کورونا ٹیسٹ اب کے نیگٹیوآیاہے ۔مگر پھر بھی وہ صحت یاب ہو نگے تو انھیں وقت لگے گا۔ آہستہ آہستہ وہ صحت کی طرف آ رہے ہیں۔دعا ہے کہ دنیائے عالم کے لئے آسمان سے اس وائرس کی نجات کا پروانہ جاری ہو۔ روزانہ مردم شماری ہوتی ہے ۔کتنے کوروناکے بیڈ پرآئے کتنے اٹھ کر گھر گئے اور کتنے اٹھ ہی نہیں پائے ۔بلکہ لیٹے لیٹے زمین اوڑھ کر ہمیشہ کو سو گئے۔مگر ہم سبق سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔