جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت 

 پی ڈی ایم کے سیاسی کیمپ سے اس نوع کی خبریں آ رہی ہیں کہ جن سے دکھائی دیتاہے کہ ابھی تک اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اسلام آباد کی طرف 26 مارچ 2021 سے جو لانگ مارچ شروع کیا جائے اس کا دورانیہ کتنا ہو اور اس کی غالبا سب سے بڑی وجہ اپریل اور مئی کے دوران ہونے والے مذہبی تہوار اور اس کے بعد کڑاکے کی گرمی کے موسم کی آ مدہو گی۔ کہ جس کے دوران اس ملک میں لوگ سڑکوں پر نکلنے اور بیٹھنے کے عادی نہیں ہیں اپریل کے پہلے ہفتے سے ہی لوگ رمضان شریف کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گے اس کے بعد عیدالفطر کے ہنگاموں میں۔اگر تو اپوزیشن والوں نے لمبے لانگ مارچ اور دھرنے کی ٹھانی ہوئی ہے تو اس صورت میں 26 مارچ کی تاریخ کوئی زیادہ قابل عمل نظر نہیں آرہی ہاں البتہ اگر ان کے ذہن میں کوئی شارٹ ٹرم پروگرام ہے تو وہ اور بات ہے مئی سے لے کر ستمبر تک کے مہینے سخت گرمی کے مہینے ہوتے ہیں جو لمبے احتجاج کیلے ویسے بھی موزوں نہیں تصور کیے جاتے کسی بھی پارلیمانی جمہوریت میں انا پرستی نہیں چل سکتی مذاکرات کے دروازے نہ حکومت کو بند کرنے چاہیں اور نہ ہی اپوزیشن کو۔اپنے اپنے سیاسی موقف پر ڈٹے رہنے سے ملک میں انتشار پھیلتا ہے عقل مند سیاسی لوگ وہ ہوتے ہیں جو مذاکرات کیلئے اپنے دروازے ہمیشہ کیلئے بند نہیں رکھتے اور نہ ہی ایک دوسرے کی کردار کشی میں اس حد تک آ گے چلے جاتے ہیں کہ۔بعد میں ان کو اپنے الفاظ۔واپس لینے میں اپنی سبکی محسوس ہوتی ہو آج وطن عزیز کے سیاست دان کچھ اسی قسم کی ذہنی کیفیت سے دوچار ہیں وہ اپنے اپنے سیاسی حصار میں اس قدر بند ہو گئے ہیں کہ ان کو اب باہر نکلنے کیلے کوہی رستہ سجھائی نہیں دے رہا حکومتی زعماء یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن این آر او چاہتی ہے اگر حکومت آج ان کے خلاف میگا کرپشن کے کیس ختم کر دے تو وہ حکومت وقت کی مخالفت کرنا چھوڑ دے گی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز نے اپوزیشن کو یہ موقعہ فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں یہ کہہ سکے کہ۔دیکھو نا ہمارے خلاف اگر کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہوتے تو اب تک ہمارے خلاف عدالتوں میں فیصلے ہو چکے ہوتے اور وہ اس قدر طول نہ پکڑتے اپوزیشن کے بعض لیڈر اپنے خلاف میگا کرپشن کیسز کے اندراج کو انتقامی کاروائی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔جہاں تک اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا تعلق ہے اگر اپوزیشن اس پر سو فیصد عمل درآمد کرتی ہے تو یہ لانگ مارچ حکومت وقت کیلئے ایک بڑا دردسر بھی بن سکتا ہے اسلام آباد کے باسیوں نے دیکھ لیا ہے کہ عمران خان کے دھرنے اور اس کے بعد علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کے لانگ مارچ سے وفاقی دارالحکومت کا نظم و نسق کتنی بری طرح متاثر ہوا تھا ایک مرتبہ اگر لوگوں کا جم غفیر اسلام آباد میں کسی خاص مقام پر جمع ہو جائے تو وہ معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے اس قسم کے لانگ مارچ کو الیکٹرانک میڈیا پھر جس قسم کی پبلسٹی فراہم کرتا ہے اس سے اسے مزید شہ ملتی ہے اسلام آباد جیسی حساس جگہ پر ہزاروں لوگوں کا جمگھٹا پھر حکومت وقت اور اور مظاہرین کے درمیان ایک اعصابی جنگ شروع کر دیتا ہے اس قسم کی اعصابی جنگ میں حکومت کی پوزیشن بڑی نازک ہوتی ہے وہ اگر مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کرے تو اس میں مظاہرین کے زخمی یا ہلاک ہونے کا خدشہ ہر وقت موجود رھتا ہے اور اگر خدانخواستہ طاقت کے استعمال سے مظاہرین میں سے کوئی زخمی ہوجائے یا ہلاک ہو جائے تو اس صورت میں پھر مظاہرین لاشوں کے اوپر مزید سیاسی تجارت کرنا شروع کر دیتے ہیں لہذا دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس قسم کے جمگھٹوں کو کسی مخصوص مقام پر جمع ہونے ہی نہ دیا جائے اور بروقت مذاکرات سے احتجاج کا پروگرام رکھنے والوں سے معاملات طے کر لیے جائیں۔یہ ملک کسی مزید انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا آپ نے دیکھا ہوگا کہ آئے دن وزیرستان اور دیگر ضم شدہ اضلاع میں تخریبی کاروائیوں کا سلسلہ پھر شروع ہے اور اس ملک کے دشمنوں کی کوشش ہے کہ وہ افواج پاکستان کو مختلف محاذوں پر مصروف رکھیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ان حالات کے پیش نظر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے ہو گا۔ اور ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا جس سے وطن دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکیں۔