چپ کا ایک سمندر سائیں 


ّ ان دنوں شور کی آلودگی سے اپنی بات بھی اپنی سماعت تک پہنچنے سے قبل ہی کہیں فضاؤں میں کھو جاتی ہے یا اگر کسی طور پہنچ بھی پاتی ہے تو اتنی آوازوں میں سے اپنی ہی آواز کا پہچاننا مشکل ہو گیاہے، یہ شور جو زندگی کے ہر شعبہ سے اٹھ رہا ہے اور اس سے بچنے کے لئے کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے، راستوں میں شاہراؤں پر گلی کوچوں میں اور بازاروں میں ایک ہنگامہ بپا ہے اور اگر ان سے کہیں دور ہونے کی کوشش کی بھی جائے تو یہ شور اچانک آپ کی جیب سے اٹھنے لگتا ہے کہ گلی گلیاروں اور مجلسوں بازاروں سے تو شاید الگ رہ بھی لیں لیکن یہ جو چھوٹی سی ڈیوائس آپ کی جیب میں پڑی ہوئی ہے یعنی سیل فون تو اس سے چھٹکارا پانا اب کسی طور ممکن نہیں رہا، اب اسے ہر شخص جزو لا ینفک یعنی اٹوٹ انگ سمجھنے لگا ہے، ممکن ہے کوئی کوئی جیالا اب بھی کہیں کہیں سیل فون سے فاصلے پر ہو مگر یہ سلسلہ بھی زیادہ دور جانے والا نہیں ہے ا ور ایسے لوگوں کی تعداد کسی بھی علاقے میں ہاتھوں کی انگلیوں بلکہ ایک انگلی کے پوروں پر بھی آسانی سے گنی جاسکتی ہے کہ سر دست صورت حال وہی ہے جو کبھی میر نے محسوس کی تھی۔
 ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ؔ ہوئے 
 اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
آپ بھلے سے کسی محفل میں ہوں یا معبد میں اس کی آواز اگر بند نہ کی گئی ہو تو عین اسی وقت یہ چیخ اٹھے گی، مجھے یاد ہے جب ایک بار نشتر ہال پشاور میں دوست عزیز سید افتخار حسین شاہ (مرحوم) سابق گورنرخیبر پختونخوا کی صدارت میں ہونے والی ایک تقریب میں پروفیسر خاطر غزنوی مرحوم گفتگو کر رہے تھے تو اچانک سیل فون کی رنگ ٹون بج اٹھی، جس سے وہ ڈسٹرب ہوئے اور حاضرین کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا پھر بات شروع کی تو دوبارہ آواز آئی،پھر اسی انداز سے دیکھا لیکن جب تیسری بار آواز آئی تو غصّے سے کہا ”اس کو بند کریں نا“ میں قریب ہی بیٹھا تھا کہہ اٹھا۔”وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کی جیب میں کوئی کیسے ہاتھ ڈالے“ ان کا غصّہ ایک میٹھی سی مسکراہٹ میں بدل گیا اور کہنے لگے ”اچھا یہ میرا ہے“ ایک زمانے تک باہر کی دنیا خصوصاََ امریکہ کے باسی اس کو زیادہ اہمیت یا وقت نہیں دے پا رہے تھے نئی نسل کے کچھ منچلے جو کبھی واک مین کے سپیکرز کانوں میں لگائے میوزک سنتے ہوئے اور بڑی حد تک تھرکتے ہوئے دنیا و مافیہا سے بے خبر نظر آتے تھے جبکہ باقی کے سنجیدہ لوگ کتاب سے عشق کے مراحل طے کرتے نظر آتے، خصوصا ًجہاز سے لے کر سب وے (ٹرین) تک کے سفر میں ان کے ہاتھ سے کتاب نہیں چھوٹتی تھی اور وہ بڑے دو ٹوک انداز میں سوشل میڈیا کو وقت دینے کو تضیع اوقات گردانتے تھے، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کی زلفوں کے اسیر ہو گئے ہر چند اس عادت کو اپنانے میں انہوں نے بہت وقت لیا مگر وہی ہوا جو بالآخر عز یز لکھنوی کے ساتھ کبھی ہوا تھا
 پردہ ئ دنیا میں اب بے سود ہیں یہ کوشش
 اے فریب ِ آب و دانہ میں تہہ دام آ گیا 
یادش بخیر جب نیو یارک میں مقیم میرے ایک عزیز دوست نئے نئے اسیر ِ زلف، فیس بک ہوئے تھے تو ان کی ایک بات بلکہ ’گفتہ‘ احباب میں بہت مشہور ہوا تھا، ”دا فیس بک بہ ما مڑ کی“ (یہ فیس بک مجھے جینے نہیں دے گی‘) اور یار لوگ قہقہہ لگا کر کہتے ”تا تہ چا وئیل چہ مئین شہ“ یعنی خود کردہ را علاجے نیست“ مگر اب وہاں بھی ایسا نہیں کتاب اب کم کم ہی کسی کے ہاتھ میں نظر آتی ہے اب وہاں بھی اس چھوٹی سی ڈیوائس کا راج ہے، اس میں سے کچھ لوگوں کی مجبوریاں بھی اسے اپنے پاس رکھنے کا سبب ہیں جنہوں نے اور کچھ بھی نہ کرنا ہو تو نماز پڑھنے کے وقت کے تعین کے لئے الارم پر آذان کی آواز ریکارڈ کی ہوتی ہے کہ وہاں پر وقت گزرنے کا احساس اس لئے کم کم ہو تا ہے کہ جاب کے اوقات میں آپ کو سر کھجانے کی مہلت بھی نہیں ملتی اور فون پر بات کرنے کی تو خیر سرے سے اجازت ہی نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں ہر جگہ بلکہ بطور خاص سرکاری دفاتر میں تو اپنے سارے ذاتی کام انہی اوقات کار میں انجام دئیے جاتے ہیں، کبھی کبھی کوئی ایسا وزیر اعلیٰ یا گورنر آجاتا ہے جو اس طرح کی حرکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے سرکاری دفاتر کے لئے چھاپہ مار فورس قائم کر دیتا ہے مگر وہ ٹیم بھی بھیڑ چال کا شکار ہو جاتی ہے کہ ان کو بھی تو ذاتی کام نبٹانے ہوتے ہیں جب حیات محمد خان شیر پاؤ کا زمانہ تھا تووہ سرکاری دفاتر کا اچانک خود بنفس ِ ِ نفیس دورہ کرتے اور بے قاعدگی کی صورت میں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کاروائی کیا کرتے تو کچھ دن دفاتر میں خاصی چہل پہل ہوا کرتی،ہر شخص کو یاد آ گیا تھا کہ وہ وقت پر دفتر پہنچے اور وقت پر چھٹی ہی نہ کرے بلکہ اس دوران کام بھی کرے، مگر یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر نہ چلا، اور اب پھر سے ”وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو ا ب بھی ہے“ بات شور کی آلودگی سے چلی اور سیل فون تک آ پہنچی کہ اس کے شور کو تو ہم نے خود ہی راستہ دیا ہے، اسی کی وجہ سے ہم خود بھی اس شور کا حصہ بن گئے ہیں، اس سے بسا اوقت یہ بھی ہوتا ہے کہ بے تکلف دوستوں کی مجلس میں یا پھر کسی شادی کی تقریب کے بلند بانگ میوزک کے ہنگامہ میں آپ بھی چیخ چیخ کر بات کررہے ہوتے ہیں اور اچانک شور تھمتا ہے تو آپ جھینپ جاتے ہیں اور خود اپنی ہی تیز آواز سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے، یا کبھی آپ کانوں میں ہینڈفری سپیکرز سے سیل فون پر میوزک یا کوئی پروگرام سن رہے ہوں اور کوئی کچھ پوچھ بیٹھے تو لازماََ جواب دیتے ہوئے آپ کی آواز بھی بہت تیز ہو جاتی ہے، سو ان دنوں ہر بستی شور کی بستی ہے جہاں ا پنی آواز اپنی سماعت تک پہنچنے کو ترستی ہے میں نے جان بوجھ کر اس ہنگامے کا ذکر نہیں کیا ہے جو چھوٹی سکرین پر صبح شام بپا رہتا ہے کیونکہ چھوٹی سکرین سے اٹھنے والی بے ہنگم آوازیں مجھے بازاروں میں اپنا سودا بیچنے والوں کی پر شور آوازوں سے کسی طور مختلف نہیں لگتیں، سو کہنا پڑتا ہے کہ ”ان دنوں شور کی آلودگی سے اپنی بات بھی اپنی سماعت تک پہنچنے سے قبل ہی کہیں فضاؤں میں کھو جاتی ہے یا اگر کسی طور پہنچ بھی پاتی ہے تو اتنی آوازوں میں سے اپنی ہی آواز کا پہچاننا مشکل ہو گیاہے اور ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس صورت حال کا ادراک کئے بغیر صبح و مسا خود بھی بولتے ہیں بولتے چلے جاتے ہیں گویا اب اس سماج میں کسی کو چپ رہنے کی آزادی میسر نہیں ہے،اگر کوئی صوفی منش لا تعلق بھی رہتا ہے تو زود یا بدیر اسے بھی کہنا پڑھتا ہے۔
میرے اند ر شور مچائے
چپ کا ایک سمندر سائیں