افغانستان کی نئی صورتحال۔۔۔

افغانستان میں امن کے امکانات بوجوہ دن بدن کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ اگر امریکہ کی نئی انتظامیہ طالبان اور افغان حکومت کو نتیجہ خیز مذاکرات یا معاہدے پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو ملک میں امن و امان کی حالت مزید خراب ہو جائے گی اور ایسی حالت میں افغانستان کے علاوہ دوسرے ممالک بھی متاثر ہو جائینگے ‘ طالبان نے حال ہی میں امریکی حکومت کو ایک تفصیلی مراسلہ بھیجا ہے جس میں امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ برس ہونے والے دوحا معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اسی تناظر میں نئے امریکی سیکرٹری خارجہ ٹونی بلنکن نے گزشتہ روز افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے تفصیلی ٹیلی فونک گفتگو کی جسکے بعد اپنی ایک ٹوئٹ میں سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ دوطرفہ افغان مذاکرات اور مستقل امن کے قیام تک افغانستان کا ساتھ دیتا رہے گا ‘سیکرٹری خارجہ نے مکمل سیاسی مفاہمت اور مستقل سیز فائر کو افغان امن کیلئے ناگزیر قرار دے دیا تاہم بعض امریکی حکام اشارہ دے رہے ہیں کہ شاید ان کے لئے موجودہ صورتحال میں مئی تک فوجیوں کے انخلاءاور بعض دیگر اقدامات اس وقت تک ممکن نہ ہو جب تک طالبان کی کاروائیوں میں کمی نہیں آجاتی اور سیاسی مفاہمت کا قابل عمل راستہ نہ نکل سکے امریکی میڈیا کے مطابق افغان حکومت نہ صرف یہ کہ بہت کمزور ہے بلکہ اس میں شامل بعض اہم لوگ بھی طالبان کیساتھ کسی مجوزہ معاہدے یا ڈیل کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں ‘سگارنامی ممتاز امریکی تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فورسز اور دوسرے ادارے محض اپنے دفاتر اور چھاﺅنیوں تک محدود ہیں جسکے باعث حکومتی رٹ اور تعمیر نو کی سرگرمیاں محدود تر ہوگئی ہیں رپورٹ کے مطابق اہم حکومتی ذمہ داران اور اداروں کو تعمیر نو کی زیادہ فکر نہیں جبکہ ایک روسی خبررساں ایجنسی نے لکھا ہے کہ افغان حکومت کے متعدد اہم لوگ اور بیورو کریٹس بڑی تعداد میں افغانستان چھوڑ کو باہر جارہے ہیں دوسری طرف روسی اور امریکی میڈیا نے ہفتہ رفتہ کے دوران رپورٹ کیا کہ طالبان نے بڑے شہروں اور سرکاری عمارات پر قبضہ کرنے کا مکمل پلان بنایا ہوا ہے اور صورتحال اس قدر غیر یقینی ہوگئی ہے کہ رشید دوستم اور بعض دیگر نے ماضی کی طرح چند روز قبل سرکاری سرپرستی میں گلیم جم ملیشیاءکے سینکڑوں افراد کو کابل‘ ہرات‘ مزار شریف اور متعدد دوسرے شہروں میں لانا شروع کردیا ہے امریکی میڈیا کے مطابق اس قسم کے اقدامات خوف اور بداعتمادی نے اداروں کے علاوہ عوام کو بھی سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے ‘ادھر حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ اگر حکومت سیاسی مفاہمت کو عملی شکل دینے میں ناکام رہی اور فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو وہ کابل پر چڑھائی اور حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت پر مجبور ہونگے ‘اس صورتحال نے عوام کے علاوہ ان ممالک اور حلقوں کو بھی سخت پریشانی اور تشویش میں مبتلا کردیا ہے جو کہ امن اور مذاکرات کے خواہاں ہیں بعض رپورٹس کے مطابق طالبان نے صرف یہ کہ نئی امریکی انتظامیہ سے2020 ءکے دوحا معاہدے کی توثیق چاہتے ہیں بلکہ ان کا یہ مطالبہ اب شدت اختیار کرگیا ہے کہ موجودہ افغان حکومت کا خاتمہ کرکے نئی شرائط کی بنیاد پر عبوری ڈھانچہ قائم کیا جائے یہ مطالبہ یافارمولہ طالبان کے علاوہ بعض دیگر افغان رہنما اور گروپ بھی پیش کرتے آرہے ہیں تاہم ڈاکٹر اشرف غنی اور انکی حکومت انکے لئے تیار نہیں ہیں طالبان نہ صرف یہ کہ بہت پر اعتماد ہیں اور جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں بلکہ اسکے وفود مختلف ممالک کے سرکاری دورے کرکے اہم حکومتی شخصیات سے مسلسل ملاقاتوں میں بھی مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف افغان حکومت اور حکمرانوں کی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں ‘گزشتہ روز شمال کے اہم لیڈر اور احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے دوسروں کے علاوہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی اہم ملاقاتیں کیں دونوں حکومتی شخصیات نے ان کو حکومت کے ان اقدامات اور کوششوں سے آگاہ کیا جو کہ مذاکرات کی کامیابی ‘سیز فائر اور مستقل امن کیلئے پاکستان کرتا آرہا ہے ‘اس موقع پر افغان وفد کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان تمام افغان لیڈروں اور عوام کے ساتھ بلاامتیاز روابط اور تعلقات رکھنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ افغان امن افغانستان کے علاوہ پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔