حکومت کے لئے سخت دن۔۔۔

 یہ مہینہ وزیر اعظم عمران خان کیلے سخت آزمائش کا ہے سینٹ کے چیئرمین کا الیکشن ان کے سر پر آن پہنچا ہے اور اس کے بعد ڈسکہ کا ضمنی الیکشن ہے تمام سیاسی مبصرین کی نظریں ان دو الیکشنوں پر جمی ہوئی ہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگاتاہم دونوں طرف سے بھر پور کوششیں جاری ہیں اور یہاں بھی کسی اپ سیٹ خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ویسے اس ملک میں ضمنی انتخاب برسراقتدار پارٹی شاذ ہی ہارا کرتی ہے اور اگر ڈسکہ کا ضمنی الیکشن بر سر اقتدار پارٹی نے ہارا تو یہ اچھنبے کی بات ہو گی اور اس سے ایوان اقتدار میں خطرے کی گھنٹی ضرور بجنی چاہئے ۔برسراقتدار پارٹی کا اقتدار میں آئینی دورانیہ نصف حد تک پہنچ چکا ہے اور یہ مناسب وقت ہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی کابینہ میں اگر ردوبدل کرنا ضروری سمجھیں تو کر دیں اور جن وزراءنے ڈلیور نہیں کیا ان کو تبدیل کر دیں کہ اب ان کی پارٹی کی سیاسی بقا کا سوال ہے پی ڈی ایم کے مجوزہ لانگ مارچ کے پروگرام کو سنجیدہ لیا جائے اس کو ٹھٹھے اور ہنسی مذاق میں نہ ٹالا جائے ابھی کل ہی کی بات ہے جب مرحوم خادم حسین نے اپنے صرف چند ہزار جان نثاروں کے ساتھ اسلام آباد میں چند روز کیلے دھرنا دیا تھا تو حکومت وقت کو وختہ پڑ گیا تھا اور مقامی انتظامیہ کے اوسان خطا ہو گئے تھے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس طریقے سے اس جم غفیر کو پر امن طور پر منتشر کریں آپ ذرا دو منٹ کیلئے سوچئے ا گر دونوں اطراف یعنی خیبر پختونخوا اور کراچی سے 26 مارچ کو لانگ مارچ کے شرکاءوفاقی دارالحکومت کا رخ کرتے ہیں اور 30 مارچ کو اسلام آباد میں ہزاروں کی تعداد میں گھس آ تے ہیں اور وہاں فیض آ باد اور یا پھر راولپنڈی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں اور حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کرتے ہیں تو اس کے لئے کونسی حکمت عملی اپنائی جائے گی عقلمند اور دور اندیش انتظامیہ وہ ہوتی ہے جو ممکنہ سیلاب کے خطرے سے پیشتر اس کے آ گے بند باندھنے کے طریقے سوچتی ہے کیونکہ ایک مرتبہ اگر سیلاب سر سے اونچاہو جائے تو پھر انسان کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ رہی یہ بات کہ الیکشن کمیشن کا کردار متنازعہ ہے تو وہ کیوں نہ متنازعہ ہو کہ جب ہمیشہ سے اس کے ممبران صرف وہ لوگ ہی بنتے آ ئے ہیں کہ جو برسر اقتدار لوگوں کے منظور نظر ہوتے ہیں تازہ ترین مثال موجودہ الیکشن کمیشن کی کمپوزیشن ہے کہ جس کے اراکین پر ملک میں ماضی میں بر سر اقتدار رہنے والے لوگوں کی چھاپ ہے سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ان کی مرضی کے افراد الیکشن کمیشن کے ممبر لگائے جائیں اس صورت بھلا وہ خاک غیر جانبداری کا ثبوت دیں گے جہاں تک ہماری سیاس قیادت کا تعلق ہے یہ لوگ کب یہ چاہیں گے کہ انتخابی اصلاحات ہوں وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام ہی جاری و ساری رہے تا کہ ان کی جیبیں ہمیشہ گرم رہیں یہ تو چلو ہوئی سیاست کی باتیں اب ذرا ایک اور بہت اہم مسئلے کی جانب آتے ہیں اور وہ ہے آئے دن ملک میں میں آٹومیٹک ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال سے ہلاکتوں کے واقعات ۔ شایدہی کوئی ایسا دن ہو کہ جب ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال سے سے معصوم جانوں کے زیاں کی خبریں اخباروں میں نہ چھپتی ہوں دکھ اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ نہ جانے کیوں اس اہم مسئلہ کی جانب حکومت قدم نہیں اٹھاتی کیا امر مانع ہے کہ ابھی تک وزارت داخلہ نے صدق دل سے اس ضمن میں کوئی قانون سازی کی کوشش نہیں کی۔