کیسے ہوتے ہیں وہ خط۔۔۔

 کسی کے باپ دادا کے لکھے گئے نامے ان کی اولاد کے پاس محفوظ پڑے ہیں۔کبھی کبھی نکال کر پڑھتے ہیں ۔ اس زمانے کی میٹھی میٹھی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔خوش ہوتے ہیں مزے لیتے ہیں۔ ہاتھ سے لکھے گئے خطوں کا تواور ہی نشہ ہے ۔بندہ کھول کر پڑھے پھر رکھ دے پھر دوبارہ پڑھے۔پڑھ لے تو ایک بار اور پڑھے اور یہ پیاس نہ بجھ پائے۔اب تو دفتری مراسلت ہو یا نجی خط و کتابت کام بہت آسان ہو گیا ہے۔فیکس مشین سے ہزاروں میل دور سے خط کو مشین میں ڈالا اور یہاں وہ خط اپنے پاس دوسری مشین سے نکل آیا۔فیکس مشین تو مثال کےلئے لکھا ہے ۔وگرنہ تو یہ بھی آئی گئی ہوگئی ۔اب نئے انداز ہیں۔اب تو مشینوں کی حکومت ہے ۔جو دل کےلئے موت ہیں۔کیونکہ اس سے رواروی اور خطوں میں ڈالی گئی جذباتیت کا خاتمہ ہوگیاہے۔اختر شیرانی کی کیاخوبصورت شاعری یاد آئی ہے۔” مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر۔ آج تک تیرے خطوں سے تیری خوشبو نہ گئی“۔خطوط نگاری باقاعدہ ایک صنفِ نثر ہے ۔مگر وہی بات کہ اب صرف کورس کی کتابوں تک محدود محصور ہے ۔علامہ اقبال کے خطوط پر مبنی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ غالب کے خطوط نے اردو نثر نگاری کو کاندھا دیا ہے۔ اکبر الہ آبادی کے خطوط ، بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مکاتیب۔پھر شیخ احمد سرہندی ( حضرت مجدد الف ثانی) کے سینکڑوں برس پرانے خطوط بھی کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں‘ گراں قدر شخصیات کے خطوط اب بھی ا س لئے پڑھے جاتے ہیں کہ ان میں علمی بحثیں ملتی ہی۔ کسی نے دوسرے شہر سے خط لکھ کر کسی مسئلے پر دریافت کیاتو اس کو تفصیل سے جواب دیا ۔ اس وقت تو فراغت بھی ہوتی تھی ۔ وہ مصروفیات نہ تھیں جن کاتعلق موجودہ زمانے کی سرگرمیوںسے ہے ۔سو بندہ خط کا جواب لکھ دیتا تھا۔بلکہ خط لکھنا اور جواب لکھنا ایک مشغلہ بھی بن گیاتھا۔ باقاعدہ اس کےلئے وقت نکالا جاتاتھا ۔ پھر لکھائی کو خوبصورت کر کے اس پر خوب وقت لگاکے جواب لکھا جاتاتھا۔ مگر اب کیا ہے ۔موبائل اٹھایااور موبائل کے کی بورڈ کو استعمال کر کے جواب لکھ ڈالا ۔ فیس بک پرکسی فرینڈ نے کوئی مسئلہ اٹھا دیاتو اس پر بحث کے دفتر کھل گئے ۔ جو جو جس ملک جس شہر سے بیٹھ کر جواب لکھ رہاہے فوراً سے پہلے سب دوستوں کو پہنچ رہاہے ۔بلکہ جواب ابھی مکمل نہیں ہوا ہوتا ۔مگر موبائل سکرین پر اس بات کا پتا چل جاتا ہے کہ جواب لکھنے والا لکھ رہاہے۔ کسی کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوںکی اور بات ہوتی تھی۔کوئی بڑی شحصیت اگر خط کا جواب لکھ دیتی تو اس سے بڑی اور کیا فخر کی بات ہوتی تھی۔اب بھی ذوق رکھنے والوں کے پاس پرانے خط سنبھالے پڑے ہیں ۔ اب تو خط لکھنے کی رسم جیسے اٹھادی گئی ہے۔ ڈاک خانے ویرانی کا منظر پیش کرتے ہیں۔سرکاری خط و کتابت ہو یا کوئی پلندے بھیجنا ہوں توہوں ۔وگرنہ ذاتی خطوط لکھنا ترک ہو چکا ہے۔ اگر ضرورت ہوتی تو اب بھی ڈاک خانوں کی وہ رونقیں بحال رہتیں۔ ڈاکخانوں میں گہماگہمی رہتی ۔ مگر کچھ بھی تو نہیں رہا۔ موبائل نے سب کچھ فیل کر دیا۔اب اگر خطوں کی قدر وقیمت ہے تو صرف کورس کی کتابوں میں خط ہیں ۔ یہ وہ خط ہیں جو بڑی شخصیات نے ماضی میں لکھے ۔وہی کورس میں پڑھاتے جاتے ہیں۔ وگرنہ تو ہمارے خط ہو ں یاکسی اور کے۔ یہ خط وہ قدروقیمت نہیں رکھتے ۔ مگر بڑے لوگوں کے خطوں کی قدر اب بھی ہے۔پہلے تو خط نہ آتا تو جان جانے کااندیشہ رہتا۔ دل میں جیسے کوئی چٹکیاں کاٹتا ۔شعرو شاعری کاایک موضوع خط لکھنابھی ہے ۔شاعری میں خط لکھنے اور خط کے جواب کے انتظار کے سینکڑوں اشعار ہیں جو پچھلے زمانے کی یادگار ہیں۔”نامہ بر تو ہی بتا تو نے دیکھے ہوں گے ۔ کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں“۔مہینہ مہینہ خطوں کا انتظا ررہتا ۔اگلے کے د ل میں رحم جگہ گھیرتا تو جواب آ بھی جاتا۔ مگر ضروری نہیںکسی پیارے کو خط لکھیں اور اس کاجواب آئے۔ سو خط لکھ کر دل میں کڑھن اور بے قراری رہتی ۔اب تو موبائل پر مسیج کرنے کے ہنر نے اس شعبہ کو جیسے تہہ وبالا کر ڈالا۔اپنے ملک کے دوسرے شہر چھوڑ کسی اور دوردراز کاملک کیوں نہ ہو ۔پل بھر میں ہاتھ کا دس صفحوں کا خط پل بھر میں اپنے ہمدم ِ دیرینہ کو پہنچایا جاتا ہے۔پھر اس کاثبوت بھی وٹس ایپ پر مل جاتا ہے کہ اس نے خط دیکھ لیا او رپڑھ لیا ۔ بلکہ لکھنے لکھانا بھی تو جیسے بس ایک بات سی رہ گئی ہے۔ اب تو وائس میسج بھیجو ۔ہزار کو س سے یوں محسوس کروجیسے وہ آمنے سامنے بیٹھا ہو۔وٹس ایپ نہ ہو تو میسنجر یا فیس بک کا استعمال تو چوبیس گھنٹوں میں ایک سو چوبیس مرتبہ کی بات ہے ۔عوام کے خطوں کی تو اب سرے سے اہمیت ہی نہیں رہی ۔ کیوں بڑے بڑے پھڑپھڑے لکھ کر اپنا وقت برباد کیا جائے ۔ پھر تار والے گھر کے بڑے فون کو بھی تو لوگ اس طرح استعمال نہیں کرتے جیسا آج سے تیس سال پہلے اس کی اشد ضرورت ہوتی تھی۔ اب چند روپے کا پیکیج کروایا اور گھنٹوں آمنے سامنے باتیں شروع کر دیں ۔ ویڈیو کال پر یو ںمحسوس ہوتا ہے کہ بندہ سچ مچ کمرے میں ساتھ ہے۔وہ جو گذر گئے اب ہوتے تو اسی جدید موبائل کا استعمال کرتے۔