اعظم خان کا عزم ِ

یہ اے این پی کے دور حکومت کا ذکر ہے حید رہوتی وزارت اعلیٰ سنبھال چکے تھے صوبہ کے گورنر کے لیے مشاورت جاری تھی اے این پی کی طرف سے ایک سابق بیوروکریٹ کانام تجویز کیاگیاتھا تمام معاملات فائنل ہوچکے تھے پارٹی کے ایک اہم ذمہ دار نے اس شرط پر ہمیں نام بتایاکہ یہ آف دی ریکارڈ رکھاجائے گا بدقسمتی سے پھر معاملہ کسی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا اوریوں وہ شخصیت گورنر بنتے بنتے رہ گئی جس کاخود اے این پی کوبھی بہت  افسوس تھا بہرحال یہ ادھورا سفر اس وقت پورا ہوگیا جب اسی شخصیت نے بدھ کو صوبہ کے نگران وزیر اعلیٰ کے طورپرحلف اٹھالیا۔ہمارا رابطہ بھی ان کے ساتھ انہی دنوں سے چلا آرہاتھا یہ شخصیت چارسدہ کے معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر اعظم خان کی تھی۔ ان کے دادا حاجی صحبت خان اپنے علاقے کے چیف تھے جبکہ ان کے والد بیرسٹر عبدالغفور خان نہ صرف ایک کامیاب قانون دان بلکہ ایک اہم سیاسی رہنما بھی تھے جو1937ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اورباچاخان کے دست راست تھے محمد اعظم خان نے ابتدائی تعلیم بھوپال‘ مری اور گھوڑا گلی سے حاصل کی اسلامیہ کالج سے گریجویشن کے بعد لندن چلے گئے اور لنکنز ان میں داخلہ لے کر‘ بارایٹ لاء کیا1962ء میں انہوں نے ایک طرف بیرسٹری کا امتحان دیا اور دوسری طرف سی ایس ایس کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کی اور اسسٹنٹ کمشنر پشاور کی حیثیت سے سول سروس کا آغاز کیا پنڈی میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین بھی رہے مغربی پاکستان سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیئے جولائی1970ء سے ستمبر1973ء تک سیکرٹری ٹو گورنر رہے ڈی سی اور کمشنر کے عہدوں پر بھی کام کیا کئی محکموں کے صوبائی سیکرٹری بھی رہے1990ء سے 1993ء تک چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا رہے بعدازاں ترقی کر کے فیڈرل سیکرٹری بن گئے وفاقی سیکرٹری برائے مذہبی امور اور پٹرولیم و قدرتی وسائل کے منصب پر بھی کام کیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد اقوام متحدہ سے وابستہ ہوگئے اور کئی پراجیکٹس کے سربراہ رہے 24 اکتوبر2007ء کو ایم ایم اے حکومت کے استعفے کے بعد جو نگران حکومت بنی اس میں ان کو صوبائی وزیر برائے خزانہ اور پی اینڈ ڈی مقرر کیا گیا۔بعدازاں جب 2018ء کے الیکشن ہورہے تھے تو انہیں نگران وفاقی وزیر داخلہ بنایاگیاتھاان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہواہے کہ صوبہ کے بدترین سیاسی مخالفین جو گذشتہ ساڑھے چار سال کے دوران کسی بھی معاملہ پرمتفق نہیں ہوسکے تھے و ہ نگران وزارت اعلیٰ کے لیے اعظم خان کے نام پر متفق ہوئے وہ نہ صرف بیوروکریٹ رہ چکے ہیں بلکہ صوبائی اوروفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں۔اس لیے اب امید ہے کہ اس مختصر وقفے میں الیکشن کے شفاف انعقاد کے ساتھ ساتھ صوبہ کامعاشی مقدمہ بھی بھرپور ا نداز میں مرکز کے ساتھ اٹھائیں گے۔پی ٹی آئی کی حکومت رخصت ہوگئی مگر تمام تر دعووں کے باوجود مرکزی حکومت کے ساتھ صوبہ کے بقایاجات کامقدمہ نہ لڑا جاسکا۔ سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور سابق وزیر خزانہ تیمورسلیم جھگڑا گذشتہ چند ماہ سے تسلسل کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ صوبہ کے بقایا جات اور قبائلی اضلاع کے فنڈز کے عدم اجراء کے خلاف نہ صرف قومی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنادیا جائے گا بلکہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیاجائے گا۔بدقسمتی سے ان دعووں پر عمل نہ کیاجاسکا۔ اب یہ امرخوش آئند ہے نگرا ن وزیر اعلیٰ اعظم خان نے یہ معاملہ مرکزکے ساتھ دوٹوک انداز میں اٹھانے کا اعلان کردیاہے گذشتہ دنوں ان کی رہائشگاہ پر ان کے ساتھ غیر رسمی نشست ہوئی جس میں انہوں نے کھل کراپنی ترجیحات واضح کردیں۔ وہ نہ صرف صوبہ کی معاشی بلکہ امن وامان کی صورت حال پر بھی فکرمند دکھائی دیئے بظاہر تو وہ عمر رسید ہ ہوچکے ہیں مگر صوبہ کے حقوق کے حوالہ سے ان کاعزم جوان دکھائی دیا۔ کہنے لگے کہ اب تو سیاسی مخالفت کابہانہ بھی ختم ہوگیاہے اس لیے صوبہ کے فنڈز کے عدم اجراء کا کوئی جواز باقی دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کاکہناتھاکہ وزیر اعظم کے ساتھ پہلی ملاقات کو وہ محض ایک رسمی اورتعارفی ملاقات نہیں رکھیں گے بلکہ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ صوبہ کے لیے کچھ لے کر لوٹیں۔ اگر نگران وزیر اعلیٰ کے ماضی کے تجربات اور ان کی شخصیت کو مد نظر رکھ کردیکھاجائے تو یہ امید رکھی جاسکتی ہے اپریل 2022ء سے صوبہ جس مالی بحران کاشکارچلا آرہاہے اس کے خاتمہ کی طرف پیشقدمی ممکن ہوسکے گی۔ اگرچہ ان کے اصل فرائض میں یہ چیز شامل نہیں مگر وہ اس مٹی کے قرض کی ادائیگی کے لیے اس عمر میں بھی پوری طر ح سے مستعد ہیں۔ چیف سیکرٹری کو کیس کی تیاری کی ہدایت و ہ پہلے روزہی کرچکے ہیں گویا ان کو بھی پتہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت،اس مرحلہ پر ہی ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے سب کو اپنے اپنے حصہ کاکردارادا کرناہوگا۔