مشرق وسطیٰ میںمثبت پیش رفت 

مشرق وسطی میں چین اور روس کی دلچسپی امریکی حکام کے لیے طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہی ہے، جو اس خطے کو توانائی کی عالمی قیمتوں کے لئے اس کے باوجودانتہائی اہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ پہلے سے کہیں زیادہ اپنے ملک میں خام تیل نکال رہا ہے اور سعودی تیل پر اتنا انحصار نہیں کرتا جتنا کہ اس پر پہلے کرتاتھا۔ تھا۔سعودی عرب روس کے قریب ہو گیا ہے کیونکہ ماسکو نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران، تیل کی عالمی قیمتوں کو بڑھانے کے لئے اوپیک کی طرف سے پیداوار میں کٹوتیوں کی حمایت کرنے کے لئے اتحادیوں کو اکٹھا کیا۔چین اور روس کے مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ میں اضافے کو اسلامی دنیا میں مثبت پیش رفت اس حوالے سے سمجھا جا رہا ہے کہ حال ہی میں یہاں پر اختلافات میں کمی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں ان کے مثبت اثرات جلد یا بدیر سامنے آئیں گے۔ حال ہی میں ایک اور خوشگوار پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ایک دہائی میں پہلی بار مملکت سعودی عرب ، جنگ زدہ ملک شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے لئے اس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، یہ خطے میں ایک تازہ ترین ترین سفارتی تبدیلی ہے۔سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان بیجنگ میں چین کی ثالثی میں ہونے والی اس بات چیت کے بعد سامنے آیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران برسوں کی کشیدگی کے بعد ایک دوسرے کے ملک میں سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر رضامند ہوئے۔سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے جمعرات کو دیر گئے ایک رپورٹ نشر کی، جس میں ملک کی وزارت خارجہ کے ایک نامعلوم اہل کار کے حوالے سے، مملکت سعودی عرب اور دمشق کے درمیان ہونے والی بات چیت کا اعتراف کیا گیا۔وزارت خارجہ کے ایک ذریعہ نے الاخباریہ کے لئے انکشاف کیا کہ جو تبادلہ خیال اس وقت جاری ہے اس کا آغاز شام کی وزارت خارجہ کے ساتھ ہوا۔جس میں کچھ بین الاقوامی میڈیا پر نشر ہونے والی باتوں پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ مملکت کے حکام اور شام میں ان کے ہم منصبوں کے درمیان قونصلر خدمات کی فراہمی کو دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ وال سٹریٹ جرنل نے نا معلوم سعودی اور شامی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ان ممالک کے سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے لئے مذاکرات روسی ثالثی کا نتیجہ ہیں۔شام کے سرکاری میڈیا نے فوری طور پر مذاکرات کا اعتراف نہیں کیا ہے۔قبل ازیں جمعرات کو، روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اومان کے سلطان ہیثم بن طارق کو فون کیا، جسے کریملن نے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے پہلا اعلی سطحی دوطرفہ رابطہ قرار دیا۔ مسقط نے 1985 میں سوویت یونین کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔اومان طویل عرصے سے مغرب اور ایران کے درمیان بات چیت کرانے والا ملک رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں یمن کی طویل عرصے سے جاری جنگ پر اومان میں بات چیت ہوئی ہے، سعودی عرب نے 2011 میں شام میں شروع ہونے والی شورش میں جو خانہ جنگی میں بدل گئی ، اسد کے خلاف شامی اپوزیشن کی حمایت کی۔ تاہم حالیہ دنوں میں علاقائی سطح پر میل جول بڑھا اور پھر شام اور ترکی میں گزشتہ ماہ کے تباہ کن زلزلے نے بین الاقوامی ہمدردی کو جنم دیا جس نے اس عمل کو تیز کیا،اور سعودی اور دیگر عرب ممالک نے دمشق کو امداد بھیجی۔شام کے صدر بشار الاسد نے فروری کے آخر میں اومان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اتوار کو متحدہ عرب امارات کا سفر بھی کیا۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے عوامی سطح پر اعتراف کیا ہے کہ عرب ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ دمشق کے ساتھ بات چیت ضروری ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں امن کے امکانات ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ روشن ہوگئے ہیں تاہم امریکہ اس صورتحال سے زیادہ خوش نہیں اور اس کے اثرات جلد یا بددیر سامنے آئینگے۔