کامیاب بین الاقوامی ثالث

اس وقت دنیا میں عالمی منظرنامہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور اس میں اہم کردار روس اور چین کے ایک ساتھ امریکہ کا مقابلہ کرنے کی پالیسی کا ہے ایک وقت تھا کہ چین اور روس دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھے اور اس کا فائدہ امریکہ نے ہر محاذ پر اٹھایا۔چین اور روس کے اکھٹے ہونے اور ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہونے سے امریکہ کی عالمی پوزیشن بری طرح متاثر ہونے لگی ہے اور اس وقت چین اور روس دونوں عالمی سطح پراپنا اثر رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں،ایک طرف چین نے مشرقی وسطیٰ میں حالات کو یکسر تبدیل کیا ہے تو دوسری طرف روس میں بھی اس خطے میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کی طرف پیش رفت کی ہے تازہ ترین خبر ہے کہ روس نے شام اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے کوششیں شروع کی ہے اور جلد ہی دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آجائیں گے شام پر روسی اثرورسوخ میں کوئی شک نہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بشارالاسد کی حکومت کو برقرار رکھنے میں روس کا اہم کردار ہے جس نے ایسے حالات میں بشارالاسد حکومت کی مدد کی جب امریکہ سمیت بہت سے ممالک اس کے خلاف مزاحمت میں مصروف تھے اور بہت سے مبصرین نے تو یہاں تک کہا تھا کہ بشارالاسد حکومت ختم ہونے میں محض چند دن رہتے ہیں ایسے میں روسی طیاروں نے مخالف فریقوں کے مورچوں پر بمباری کرتے ہوئے ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اور شام میں بشارالاسد حکومت برقرار رہی جہاں تک چین کی بات ہے تو اس نے حالیہ کچھ عرصے میں دور رس اہمیت کے حامل اقدامات کئے ہیں۔چین نے بتدریج اپنی دفاعی صنعت کو اس قدر جدید اور وسیع بنا دیا ہے کہ اب وہ ہتھیار بنانے کے معاملے میں روس اور چین سے پیچھے نہیں رہا۔1985 میں دینگ شیاوپنگ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین کی دفاعی پالیسی میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی۔ پہلے حملہ کرنے، شدید ردِعمل دینے اور ایٹمی جنگ لڑنے کی حکمتِ عملی کے بجائے چین نے انتہائی شدت کی جنگ لڑنے کے لیے اپنے جنگی سازوسامان اور اطلاعات کے شعبے کو مضبوط بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ چین نے تعداد پر معیار کو فوقیت دی اور اس مقصد کے تحت اپنی مسلح افواج کو 10 لاکھ تک کم کیا اور اپنی سیاسی قیادت میں 50 فیصد تک کمی لے کر آئے۔اس کے باوجود چین کے پاس 350 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ طاقتور چین نے تائیوان کے جزیرے پر حملہ کیوں نہیں کیا۔اس کا واضح جواب یہی ہے کہ چین اسلحے سے زیادہ مضبوط معیشت کے ذریعے ممالک پر اثر رسوخ بڑھانے کے اصولوں پر کاربند ہے اور اسی نکتہ نظر سے وہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے تگ و دو میں مصروف ہے۔دنیا کے مختلف خطوں میں اس نے جو سرمایہ کاری کی ہے اور انفراسٹرکچر میں جو پیسہ لگایا ہے وہ تب ہی محفوظ ہوگا اور یہ سرمایہ کاری تب ہی سود مند ہوگی جب امن قائم رہے۔ جبکہ اس کے برعکس امریکہ کے مفادات زیادہ تر جنگوں اور اس میں اسلحے کی فروخت سے وابستہ ہیں۔شاید چین فیصلہ کرچکا ہے کہ اسے اب عالمی امن کے قیام کیلئے سرگرم کردار ادا کرنا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں چین نے ثالثی کا کردار ادا کیا جس کے ذریعے چین نے بین الاقوامی ثالث بننے کے مقاصد کی جانب ابتدائی اور اہم قدم اٹھایا ہے۔چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی نے اپنی اہمیت میں ماضی میں ہونے والے دیگر معاہدوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان معاہدوں میں 1966 میں روس کی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا تاشقند معاہدہ، 1972 میں روس کی جانب سے شملہ معاہدے کی حوصلہ افزائی، امریکا کی جانب سے 1978 میں کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدے اور 1993 میں اسرائیل اور فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن کے درمیان وائٹ ہاس میں طے ہونے والا اوسلو معاہدہ بھی شامل ہے۔ بھارت اس وقت نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے امریکہ اور روس سمیت دنیا کے کئی ممالک سے وہ ہتھیار حاصل کر کے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش میں ہے تاہم چین کے ہوتے ہوئے اس کے یہ عزائم کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ چین ہر حوالے سے بھارت پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہے۔اس کے پاس نہ صرف فوجی سازوسامان معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے بہتر ہے بلکہ معاشی طور پر بھی وہ زیادہ مستحکم معیشت کا مالک ہے۔