کیا سوویت یونین کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے؟ 

شاید ہی کرہ ارض کا کوئی ایساحصہ ہو جو آج انتشار سے بچا ہو ہر سو فساد ہی فساد کا عالم ہے۔ روزانہ معاش کی تلاشی میں غریب اور مفلوک الحال ممالک سے یورپ جاتے ہوئے درجنوں  نوجوان افراد راستے میں سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ اگر ان غریب ممالک کے حکمرانوں نے اپنے ملکوں کے اندر ایسے  معاشی پروگرام تشکیل دئیے ہوتے کہ جن سے ان کو اپنے ملک کے اندر ہی رزق حلال میسر آ جاتا تو وہ کیوں رزق کی تلاش میں دھکے کھانے غیر ملکوں کا رُخ کرتے یہ ان تمام ممالک کے حکمرانوں کیلے لمحہ فکریہ ہے کہ جہاں کے نوجوانوں کیلئے ان کے ملک کے اندر روزگار کے مناسب ذرائع میسر نہیں ہیں۔ شام میں جوابی حملوں کے بعد امریکہ اور ایران ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ چین اور امریکہ میں بھی  دن بہ دن کشیدگی کی فضا زیادہ مکدرہوتی جا رہی ہے اور لگتا ہے وہ جنگ کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ادھر روس کا صدر بھی اپنی ضد پر اڑاہوا ہے اور یوکرین کا حکمران بھی اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے امریکہ اور اس کے مغربی حواری کسی صورت بھی یوکرین کے حکمران کی  ہلہ شیری سے باز نہیں آ رہے وہ اس کی بھرپور عسکری امداد جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ وہ پیوٹن کا غرور خاک میں ملاتا رہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ روس کی ایک اکثریت جس نے سوویت یونین  کی طاقت کا دور دیکھا ہے وہ پیوٹن کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے اور وہ سوویت یونین کی نشاط ثانیہ چاہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خروشیف کے دور کے بعد سوویت یونین کی قیادت نہایت ہی کمزور ہاتھوں میں چلی گئی تھی جس کا امریکن سی آئی اے نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔اب روس کے اندر پیوٹن کی زیر قیادت ایسے افراد ایوان اقتدار کا حصہ ہیں کہ جو سوویت یونین کو عالمی امور میں اسی بلند مقام پر دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس پر وہ کبھی کھڑا  تھا پرانے روسیوں اور دنیا بھر میں ان کے کامریڈ ساتھیوں کو وہ دن نہیں بھولتے کہ جب سوویت یونین نے امریکہ سے بہت پہلے خلا میں Sputnik چھوڑ کر خلائی سائنسی پروگرام میں اپنے سیاسی حریف کو پیچھے چھوڑ کر بر تری حاصل کر لی تھی اسی طرح نیٹو کے مقابلے میں سوویت یونین نے وارسا پیکٹ بنا کر اسے جدید ترین اسلحہ سے اس قدر لیس کیا تھا کہ ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب وارسا پیکٹ کے ممبر ممالک کے  پاس موجود ٹینکوں کی تعداد نیٹو کے ممبران ممالک  کے پاس موجود ٹینکوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عسکری قوت کے لحاظ سے سوویت یونین کی زیر قیادت وارسا پیکٹ میں شامل مشرقی یورپ کے ممالک عسکری لحاظ سے نیٹو کے ممبر ممالک سے سے کافی مضبوط تھے اگرہم سوویت یونین کے ماضی کے دریچے میں مزید جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح چین میں ماؤزے تنگ اور ان کے کامریڈز نے 1949 میں سرخ انقلاب کے ذریعے چین میں ایک عوامی انقلاب کی طرح ڈالی تھی بالکل اسی طرح روس میں بھی لینن اور ان کے کامریڈوں نے 1917 میں ایک سرخ انقلاب بپا کیا اور اپنی قوم کو زار روس کے چنگل سے آزاد کروایا۔  لینن کے بعد روس کو سٹالن کی شکل میں ایک مضبوط حکمران ملا اور یہ سلسلہ کافی سالوں تک چلتا رہا اس دوران چین کی قیادت خاموشی سے سوویت یونین اور امریکہ کی آپس میں چپقلش دیکھتی رہی۔اسی دوران امریکن سی آئی سے کی سازشیں مزید رنگ لائیں اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے لگا اور انجام کار سوویت یونین ٹوٹ گیا۔اب پیوٹن اس ٹوٹے ہوئے سوویت یونین کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش میں ہے۔ اور دیکھا جائے تو اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب ہے کیونکہ اس کے اثرورسوخ میں ایک بار پھر بے حد اضافہ ہوا ہے۔