سائبر ہراسمنٹ 

’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ نامی غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے ”سائبر ہراسمنٹ“ سے متعلق ”ہیلپ لائن 2022ء“ (سالانہ) رپورٹ جاری ہوئی ہے جو خواتین کی مختلف شعبوں میں مساوی شرکت‘ انٹرنیٹ تک رسائی اور انٹرنیٹ کے استعمال کی صلاحیت کے بارے ایک سنجیدہ مطالعہ ہے۔ سال دوہزاربائیس میں ’سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن‘ نے 2273 واقعات ریکارڈ کئے جن میں سے 2133 کی تصدیق ہوئی اور متوقع طور پر اِن واقعات کی اکثریت یعنی 58فیصد سے زائد خواتین کے ساتھ پیش آئے۔ ہیلپ لائن کو مجموعی طور پر 14 ہزار 346 شکایات موصول ہوئیں جن میں خواتین کی شکایات قریب ساٹھ فیصد تھیں اور زیادہ تر شکایات میں ہراساں کرنے والا فرد نامعلوم یا اجنبی ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کودھمکیوں یا تبصروں‘ اور ایسے اقدامات کا زیادہ خطرہ رہتا ہے جو اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور خواتین کو خاص طور پر اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے نکتہئ نظر سے اپنی ساکھ قائم کرنا ہوتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ عوامی کرداروں کو نسبتاً زیادہ ’آن لائن ہراسانی‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِن اعداد و شمار کے ذریعہ پینٹ کی گئی تصویر  بالکل غیر متوقع نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ تعلیم اور روزگار سے لے کر صحت کی دیکھ بھال اور مالی خود مختاری تک ہر چیز میں خواتین کو مشکلات کاسامناہے۔ اگرچہ یہ ثقافت مکمل طور پر یا مجموعی طور پر پاکستانی معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتی لیکن اس حقیقت کی نمائندگی ضرور کر رہی ہے جس کا سامنا بہت سی پاکستانی خواتین روزمرہ زندگی میں کر رہی ہیں۔ اس تناظر میں آن لائن ہراسانی کے کسی واقعہ کی اطلاع دینے کے لئے حکومتی یا کسی غیرحکومتی ادارے (این جی او) تک پہنچنا بھی آسان نہیں اور نہ تمام خواتین کو اِس حوالے سے معلومات ہونا یقینی ہے‘ ضرورت اِس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ ہراسانی کا ہر معاملہ متعلقہ حکومتی یا غیرحکومتی ادارے کے پاس رپورٹ ہو اور اِس میں شکایت درج کرنے والے یا کرنے والی کی فراہم کردہ معلومات صیغہ راز میں رکھتے ہوئے تحقیقات کی جائیں۔  ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ ’سائبر کرائم ونگز‘ کی تعداد میں اِضافہ کیا جائے اور خواتین کو اپنے خلاف ہراسانی کا کوئی مقدمہ درج کرنے کے لئے کسی دفتر جانا نہ پڑے۔ ایسا اِس لئے ضروری ہے کیونکہ خواتین کے لئے گھر سے نکلنا آسان نہیں ہوتا‘ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کو زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور بنانے پر ترجیحاً توجہ دیتے ہوئے اُن کے سماجی و سیاسی حقوق ادائیگی اور اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔