سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے اخلاقیات کی نہیں،چیف جسٹس 

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے اخلاقیات کی نہیں۔

آرٹیکل 226 کا اطلاق ہو تو مخصوص نشستوں کے انتخابات ہو ہی نہیں سکتے،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قانون کے تحت ہوتے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے متعدد قانونی نکات اٹھاتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال قانونی، نچوڑ اخلاقی لیکن معاملہ سیاسی ہے،آپ کے مقدمے کا محور اخلاقیات پر مبنی ہے جبکہ معاملہ سیاسی ہے،حکومت عدالت سے کیوں رائے مانگ رہی ہے پارلیمنٹ سے رجوع کرے۔

معاملہ کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

 دوران سماعت اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، وزیر اعظم، وزراء   اعلیٰ کے انتخابات الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ میں واضح نہیں،آئین کے آرٹیکل 60 میں چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کا ذکر ہے،آرٹیکل 266 کے تحت اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ ووٹنگ سے ہو گا۔

آئین میں واضح ہے سپیکر کا انتخاب گزشتہ اسمبلی کا سپیکر کروائے گا،منتخب اسمبلی کا پہلا کام ہی سپیکر کا الیکشن ہوتا،وزیراعظم،سپیکر، چیئرمین سینیٹ کے انتخابات الیکشن ایکٹ کے تحت نہیں ہوتے،وزیراعظم چیئرمین سینیٹ سپیکر کے الیکشن ایوان خود کراتا ہے،آئین کی ارٹیکل 53 میں سپیکر کے انتخابات کا ذکر ہے۔

سینیٹ، قومی اسمبلی کے انتخابات آئین کے تحت نہیں ہوتے،قانون کے تحت ہونے والے انتخابات کا باب ہی الگ ہے،آرٹیکل 226 کا اطلاق ہر الیکشن پر نہیں ہوتا،تمام قوانین بنے ہی آئین کے مطابق ہیں،مخصوص نشستوں پر پارٹیاں نمائندگی کی فہرست دیتی ہیں۔

رکن صوبائی اسمبلی تجویز اور تائید کنندہ ہوں تو آزاد امیدوار سینیٹ الیکشن لڑ سکتا ہے،پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی، عام شہری کا ووٹ آزاد ہوتا ہے لیکن ایم پی اے کا سینیٹر کو دیا گیا ووٹ آزاد نہیں ہوتا،جب سینیٹ کے لیے ایم پی اے کا ڈالا گیا ووٹ  آزاد نہیں ہو سکتا تو پھر بیلٹنگ خفیہ بھی نہیں ہو سکتی، حکومت سپریم کورٹ میں صرف رائے لینے آئی ہے۔

اگر سپریم کورٹ کی رائے ہمارے حق میں بھی آ جائے حتمی فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے،بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے متعلق قومی اسمبلی کی قرارداد بارے سپریم کورٹ رائے  دے چکی ہے،اگر بات وہاں درست تھی تو پھر یہاں بھی ٹھیک ہے۔

میں ایسی گیارہ مثالیں دے سکتا ہوں جن مقدمات میں عدالت سیاسی پہلوؤں کی موجودگی کے باوجود فیصلے دیئے،سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے مقدمات میں قانون کی تشریح کرتے ہوئے سیاستدانوں کو نااہل کیا،پارلیمنٹیرینز کے اثاثے ظاہر کرنے کا معاملہ سیاسی تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس پر بھی قانون کی تشریح کی،حکومت ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے اور شفافیت کے لیے سپریم کورٹ آئی ہے۔

 میں اپنی بات اس سے زیادہ سادہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ  اخلاقی ہے قانونی نہیں،ایم پی اے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے خفیہ ووٹ کے ذریعے کسی اور سینیٹر کو ووٹ ڈالنا بدیانتی ہے، پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ایم پی اے میں اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ کھلے عام کہے میں نے پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ دیا، آرٹیکل 226 واضع ہے۔

 وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے علاوہ تمام الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونگے، آئین کے ارٹیکل 53 اور 60 میں ذکر نہیں اوپن بلیٹ سے انتحابات ہو گا یا خفیہ انتخاب ہو گا،کوئی رکن صوبائی اسمبلی پارٹی کیخلاف ووٹ دینا چاہتا ہے تو سامنے آ کر دے۔

علاوہ ازیں بلوچستان حکومت نے بھی صدارتی ریفرنس اوپن بیلیٹ سے کرانے کی حمایت کرتے ہوئے  اپنا تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے۔بعد ازاں معاملہ کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔