نیب نے چیئرمین سینیٹ سے متعلق تفصیلات پیش کردیں 

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو(نیب)نے واضح کیاہے کہ بعض میڈیا رپورٹس میں نیب کی بطور ادارہ کارکردگی کے حوالہ سے یکطرفہ تاثر پیش کرکے نیب کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان میڈیا رپورٹس میں جو سیاق و سباق استعمال ہوا ہے اس کی بنیاد دانستہ قیاس آرائی پر مبنی ہے۔جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جس کا مقصد صرف اور صرف نیب کی سا کھ کونقصان پہچانا ہے۔

 نیب نے بار بار وضاحت کی ہے کہ اس کی کسی سیاسی جماعت، فرد یا گروہ سے کوئی وابستگی نہیں ہے اور اس کی وابستگی صرف ریاست پاکستان سے ہے۔ میڈیاکو حقائق کا پتہ لگانا چاہئے اور گمراہ کن اور بے بنیاد الزامات سے گریز کرنا چاہئے۔ مزید قانون کے مطابق نیب کا سرکاری نقطہ نظر حاصل کرنا چاہئے۔

نیب نے واضح کیاہے کہ کڈنی ہل ایریا کی اراضی پبلک پارک مقصد کے لئے مختص تھی۔ 7نومبر1966اور 5 ستمبر 1969کے حکمنامہ کے تحت کے ڈی اے اسکیم نمبر 32 فالکنامہ کے اسے پارک کے طور پر تفریحی علاقہ بنانے کی تجویز پیش کی۔

1973 میں اوورسیز سوسائٹی نے کراچی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز یونین سے کڈنی ہل کی اراضی کا انتظام حاصل کیا جو یونین کی زمین کا حصہ نہیں تھا 1990 کے بعد سے سندھ ہائیکورٹ میں کے ڈی اے / کے ایم سی اور سوسائٹی کے مابین کڈنی ہل کی اراضی کی سہولت یا رہائشی اراضی کی حیثیت کا کیس چلتارہا۔ آخر کارسی ایم اے نمبر592-K/2018.کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے اس کی سہولت ہونے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ایم اعجاز ہارون نے اوورسیز سوسائٹی کے 12 پلاٹوں کو مختلف ٹھیکیداروں کے نام پر غیر قانونی الاٹمنٹ پرانی تاریخوں میں کی اور اوپن ٹرانسفر لیٹرکے ذریعے ان کی ملکیت کا انتظام کیا۔ بعد میں سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون نے جان بوجھ کر اور اپنی مرضی سے، اومنی گروپ کے عبد الغنی مجید کے ساتھ جائیداد کا معاہدہ کیا اوراے ون انٹرنیشنل اور لکی انٹرنیشنل کے نام سے جعلی بینک اکاؤنٹس سے 144ملین روپے وصول کیے۔

ایم اعجاز ہارون اور سلیم مانڈی والا کا جرم میں حصہ بالترتیب 80ملین روپے اور 64.5 ملین روپے ہے۔ مذکورہ مشکوک معاہدے میں سے، سلیم مانڈوی والا نے سودے کو برقرار رکھا جو کسی بھی طرح کی املاک کے معاہدے میں ناممکن ہونے کے بجائے انتہائی غیر معمولی ہے۔

 جرم میں استعمال ہونے والی رقم کے ذریعے منافع حاصل کرنا اوراس بھاری رقم کو اپنے پاس رکھنا بڑا جرم ہے اور جائیداد کے معاملے میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔سلیم مانڈوی والانے مذکورہ لین دین میں اپنے بھائی کی کمپنی مانڈوی والا بلڈرز اینڈڈویلپرز اور اس کے بینک اکاؤنٹ کو استعمال کیا ہے تاکہ اس لین دین کو کاروباری لین دین کے طور پر چھپایا جاسکے۔ 

وہ مذکورہ سودے کے بینیفشری ہیں کیوں کہ انہوں نے وصول ہونے والی رقم کو اپنے ذاتی فوائد کے لئے استعمال کیا ہے۔ ابتدائی طور پر اس نے اوورسیز کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی (او سی ایچ ایس) بلاک 7 اور 8 میں اپنے ملازم عبدالقادر شیوانی کے نام پر پلاٹ نمبر30/55اے خریدا اور ٹرسٹ دعوت حدادیہ کراچی کے ساتھ اپنا ذاتی قرض بھی نمٹا لیا۔

 تمام ادائیگیاں سلیم مانڈوی والا کے اپنے دستخطوں سے کی گئی تھیں۔ طارق محمود سلیم مانڈوی والا کا ملازم ہے جس کی کوئی مالی حیثیت نہیں ہے۔ بظاہر، انھیں سلیم مانڈوی والا کے بے نامی دار کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔

سلیم مانڈوی والا کو کال اپ نوٹس جاری کیا گیا تھا تاکہ وہ 18 اکتوبر 2019 کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہوں انہوں نے 5 ماہ کے وقفے کے بعد سوالنامہ کا جواب دیا جس میں کوئی وضاحت / جواز نہیں ہے۔ اس کے بعد، اسے جرم کی آمدنی کے استعمال سے متعلق جواب کے لئے 25جون کو ایک بار پھر کال اپ نوٹس جاری کیا گیا۔

 تفتیش کے دوران تعاون کے بجائے ملزم سلیم مانڈوی والا نے بزنس کمیونٹی کے پیچھے خود کو چھپانے کا سہارا لیا۔ گواہوں کی گواہی سے یہ ناقابل تردید نتیجے سامنے آتاہے کہ سلیم مانڈوی والا جرم کی ایک بڑی رقم کا وصول کنندہ ہے جس کا استعمال انہوں نے اپنے ذاتی فوائد کے لئے کیا ہے۔

 چیئرمین نیب نے کہا کہ انہیں پارلیمنٹیرینز کا بہت احترام ہے اور قانون کے مطابق ان کی عزت نفس کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے کیس کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور قانون کے مطابق انصاف ہوگا۔ نیب نے ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ نیب ہمیشہ قانون کے مطابق کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے۔ نیب مقررہ وقت پر قانون کے مطابق اپنا مقدمہ احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش کرے گا۔