رات کو رٹہ، دن کو پرچہ: ہمارے طلبہ کی اکثریت کا تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنیکا نسخہ

(اے منصور)

پاکستان میں ہمارے نوجوان ایک طرف ملک کے خراب معاشی حالات اور میرٹ کے برعکس بھرتیوں اور سفارش و رشوت کے باعث بیروز گاری کا شکار ہیں تو دوسری طر ف ان کی اپنی ناقص تعلیمی قابلیت بھی ان کا مستقبل مخدوش کئے ہوئے ہے۔

 اگر غور کریں تو ہمارے طلبہ کی اکثریت کلاس میں لیکچرز کے دوران توجہ نہیں دیتی۔ عموماً امتحانات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد ان کو ہوش آتا ہے اور وہ صرف امتحان پاس کرنے کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

 زیادہ سے زیادہ نمبر اور امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے Selective Studyکرتے ہیں ضروری سوالات و اسباق پر ٹک کا نشان لگاتے ہیں اور پھر امتحان سے قبل ان سوالات کے جوابات اور اسباق کا رٹہ لگانا ان کا ”مقصد اولین“بن جاتا ہے۔

 اکثرو بیشتر سکولوں میں تو اساتذہ بھی اپنے طلباء کی نالائقی اور غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے Selective Studyمیں ان کی مدد کرتے ہیں اور امتحانات کیلئے ضروری سوالات پر نشانات لگو اکر ان کی Selective Study اوررٹہ بازی میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

 اس کے بعد دن رات طلبہ رٹے لگاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کے انہوں نے اتنے سوالات و اسباق ”رٹ“ لئے ہیں کہ وہ آسانی سے امتحانات میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرلیں گے۔ 

جب امتحانات شروع ہو جاتے ہیں تو اس رٹے کو دوبارہ سے رات بھر دوہرایا جاتا ہے اور صبح جا کر پرچہ دے دیا جاتا ہے اور طالب علم خوشی خوشی گھر جاتا ہے کہ اس نے بہت بڑا تیر مار لیا ہے پرچہ تقریباًپورا کا پورا حل کردیا ہے اور اچھے مارکس کے ساتھ وہ امتحانات میں کامیابی کو گلے لگالے گا۔

 اسی طرح یہ طالب علم ڈگریاں حاصل کرتا رہتا ہے اور خوش ہوتا رہتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے لیکن درحقیقت یہ اپنے مستقبل کو تباہ کرچکا ہوتا ہے اپنے تاریک مستقل پر مہر ثبت کرچکا ہوتا ہے۔

 تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب یہ ہی نوجوان ماسٹر ز کی ڈگریاں لئے در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے اور پھر مایوس ہوتا ہے کہ اس نے یہ تعلیم حاصل ہی کیوں کی۔ اس سے تو اچھا تھا کہ کوئی ہنر ہی سیکھ لیتا،درزی بن جاتا، پلمبر بن جاتا، گاڑی مکینک وغیرہ بن جاتا تو کچھ کمانے کے قابل ہوجاتا۔ لیکن اس نوجوان کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں تو حاصل کرچکا ہے لیکن علم  کی روشنی سے محروم ہے۔

 ہمارے ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہوں۔ ملک میں ایک طرف ملازمت کے انتہائی کم مواقع ہیں تو دوسری طرف ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ ساری عمر رٹہ لگا کر ان محدود مواقعو ں سے بھی محروم ہوجاتی ہے اورانتہائی اعلیٰ ڈگریوں کے مالک ہونے کے باوجود کلاس فور تک کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

 اگر اس اعلیٰ تعلیم یافتہ کو کلاس فور کی نوکری بھی مل جائے تو اسی پر اکتفا کرکے اپنی باقی کی زندگی بسر کرتا ہے لیکن وہ اس بات کا احساس ہی نہیں کرتا کہ اس کے پاس ڈگری ہے لیکن علم نہیں ہے۔ اور وہ اب بھی علم حاصل کر کے اپنا مستقبل تابناک بنا سکتا ہے۔ اور اس کے ذریعے نہ صرف خود خوشحال زندگی بسر کرسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

اب آتے ہیں رٹہ بازی میں غیر معیاری نجی سکولوں کے کردار کی طرف۔اگر غور کریں یا اپنے ارد گرد رشتہ داروں یا ہمسایوں اور اپنے بچوں کو دیکھیں تو تقریباً ہر بچہ پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کررہا ہے۔

حساب میں میں 100، انگلش میں 100،سائنس میں 100اور کسی ایک یا دو مضامین میں صرف ایک یا دو نمبر چھوڑ کر پورے نمبر حاصل کرتا ہے۔ اور یہ بچہ اسی طرح آٹھویں جماعت تک پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرتا ہے لیکن میٹرک میں بورڈ کے امتحان میں ان جیسے طلبہ کی اکثریت اس قابلیت کو نہیں دہرا پاتی اور صرف امتحان ہی پاس کر پاتی ہے۔والدین اس موقع پر بھی اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کے ان کا بچہ حقیقی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔

 غیر معیاری نجی سکولوں کی اکثریت بھی رٹے کے فروغ میں اہم کردار نبھا رہی ہے۔ملک میں بہت سے اچھے نجی تعلیمی ادارے ہیں جو طلباء کی اچھی کھیپ تیار کررہے ہیں تاہم بہت سے نجی تعلیمی ادارے طلبہ کو حقیقی علم سے روشناس کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر پارہے۔ سرکاری سکولوں کا حال تو سب کے سامنے ہے۔

علم کسی وقت اور کیسے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔موجودہ انٹرنیٹ کے دور میں دو علم حاصل کرنا تو بہت آسان ہوگیا ہے۔ اب آپ گوگل اور یو ٹیوب جیسی ایپ کی مدد سے سے آسانی کیساتھ  گھر بیٹھے علم حاصل کرسکتے ہیں۔

  وہ نوجوان جو ڈگریاں رکھتے ہیں اور علم کی دولت سے محروم ہیں انہیں اب اس طرف سوچنا چاہئے اگر اپنے آپ کو کامیاب بنانا ہے تو اب بھی علم حاصل کرنے پر توجہ دو روزانہ اگر ایک گھنٹہ بھی درست طریقے سے علم حاصل کرنے پر توجہ دے دو تو بہت کم عرصے میں یہ نوجوان روشن مستقبل کی طرف جانے کا راستہ ڈھونڈ نکالیں گے اور جوں جوں یہ علم حاصل کرتے جائیں گے یہ آگے بڑھتے جائیں گے اور ترقی کی منازل طے کرتے جائیں گے۔

 اب تھوڑا ان طلباء کیلئے جو اس وقت زیر تعلیم ہیں ان کو بھی اس تحریر کو پڑھ کر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ رٹہ صرف ان کی تباہی اور وقت کے ضیاع کا باعث ہے۔ صرف امتحان پاس کرنے کیلئے تیاری نہ کریں بلکہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ تھوڑ ا تھوڑا علم حاصل کریں اپنا شیڈول بنائیں اور درست طریقے سے علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

 ان طلباء  کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ جب وہ ڈگری حاصل کرلیں تو وہ مطلوبہ معیار بھی حاصل کرسکیں ورنہ ڈگری لیکر وہ جونیئر کلرک تک کا انٹرویو و ٹیسٹ پاس کرنے کے قابل نہیں ہونگے اور پھر ان کو بھی ساری زندگی چھوٹی موٹی نوکریوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔اور اکثریت کو تو بیروزگاری کا عمربھر سامنا کرنا پڑے گا۔

ہمارے ملک میں یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملک کی ترقی کے سفر میں حکومت کا ہاتھ نہیں تھام رہے وجہ ان کی اپنی حاصل کردہ ناقص تعلیم ہوتی ہے۔

 اگر ہم نے اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے خوشحال زندگی بسر کرنی ہے اور اس ملک کو خوشحال و ترقیافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنا ہے تو پھر ہمیں آج ہی سے دور جدید کے مطابق علم حاصل کرنے کو ترجیح دینا ہوگی۔ ورنہ ہمارا پاکستان اسی طرح دیگر ممالک سے پیچھے جاتا رہے گا اور ہم رہتی دنیا تک شاید اپنے پاکستان کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا نہیں دلا سکیں گے۔