سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو پشاوربی آر ٹی کی تحقیقات سے روک دیا

 سپریم کورٹ  نے نیب اور ایف آئی اے کو پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے (بی آر ٹی) کی تحقیقات سے روک دیا،عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ۔

سپریم کورٹ اسلام آباد  میں پشاور بی آر ٹی منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔

خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ پشاور ہائیکورٹ نے نیب کو تحقیقات کا حکم دیا تھا، ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ بلیک لسٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا، حالانکہ جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا وہ بلیک لسٹ نہیں۔

سپریم کورٹ نے نیب سے تحقیقات کرانے کا پشاور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے نیب تحقیقات کرانے کے حکم کیخلاف صوبائی حکومت کی اپیل منظور کرلی۔

عدالت نے قرار دیا کہ بی آر ٹی پشاور کی تحقیقات نیب نہیں کر سکے گا، ہائی کورٹ کا فیصلہ قیاس آرائیوں پر مبنی تھا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ بی آر ٹی پشاور منصوبے کی تحقیقات کیلئے دیئے دونوں فیصلوں میں صرف الفاظ کا فرق ہے، ایک فیصلے میں ایف آئی اے سے تحقیقات کا کہا گیا، دوسرے فیصلے میں نیب سے تحقیقات کا ذکر ہے۔

سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو بھی آئندہ سماعت تک بی آر ٹی تحقیقات سے روکتے ہوئے صوبائی حکومت اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اپیلوں پر جاری حکم امتناع میں توسیع کردی۔

درخواست گزار عدنان آفریدی نے موقف اختیار کیا کہ منصوبے سے متعلق ہمارے خدشات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر آپ کے تحفظات متعلقہ حکام ختم کردیں تو کیا معاملہ حل ہو جائے گا۔


عدالت نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اضافی دستاویزات پر مشتمل جواب داخل کرانے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دیدی۔  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ متعلقہ افسران درخواست گزاران کے تحفظات سنیں۔

اس سے قبل پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس احمد علی نے ایف آئی اے کو 45 روز کے اندر بی آر ٹی کی تحقیقات رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر نیب اور ایف آئی اے کو تحقیقات روکنے کا حکم دے دیا۔