مسئلے کی جڑ

ایک لفظ ہم بار بار سنتے ہیں تاہم اس کی اہمیت اور نوعیت پر غور کئے بغیر ہی ہم شاید اسے دہراتے ہیں، جی ہاں وہ لفظ ہے تربیت۔ جو ایک بہت اہم اور مربوط عمل کا نام ہے  اور یہ عمل رکتا نہیں، بلکہ ہمہ وقت جاری و ساری رہتاہے جس طرح دن اور رات کے آنے جانے کا عمل مسلسل جاری ہے اسی طرح معاشرے میں افراد کی تربیت کاعمل بھی مسلسل پروان چڑھ رہا ہوتاہے۔جس طرح ایک پودا بتدریج بڑھتاہے اور اپنے ماحول یعنی زمین ہوا اور پانی سے اپنے لئے افزائش کی اشیاء اکھٹی کرکے بیج سے لے کر پودا اور درخت بننے اور پھل دینے  تک یہ مختلف مراحل سے گزرتا ہے،

اسی طرح ایک انسان کے معاشرے میں آنے کے بعد وہ ماحول سے اخذ کرنا شروع کر دیتا ہے، نومولود ہونے سے لے کر مکمل ذمہ دار فرد بننے تک، وہ جو اخذ کرتا ہے وہی معاشرے کو لوٹاتا بھی ہے۔یعنی ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ اس حوالے سے تربیت کے اہم ترین کردار والدین ہوتے ہیں جن سے بچے محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے سیکھتے ہیں، وہ  جو کچھ والدین سے سیکھتے ہیں اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیتے ہیں۔اس لئے کوئی والد جس کا غصہ ہمہ وقت ناک پر دھرا ہوتا ہے وہ بچے کو کسی بھی طرح تحمل اور ٹھنڈے مزاج  کا درس نہیں دے سکتا۔ بچے جو سنتے، دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں

وہ ان کی شخصیت کا حصہ بنتا ہے۔  اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ کسی بھی کام کی ذمہ داری لینا، اسے انجام تک پہنچانا اور اپنی کسی کمزوری کو دوسرے کے کھاتے میں نہ ڈالنا بچے تب ہی سیکھیں گے جب یہ عوامل انہیں اپنے ماحول میں ملیں، یعنی گھر میں۔ہم بچوں سے یہ توقع تو کرتے ہیں کہ وہ غیر ذمہ دار نہ ہوں، وقت کے پابند ہوں، جھوٹ نہ بولیں، وقت ضائع نہ کریں وغیرہ وغیرہ،جبکہ ہمارا اپنا عمل اس کے برعکس ہو تو اس حالت میں بچے کا مذکورہ صفات سے مزئین ہونا ہمارا خواب تو ہوسکتا ہے مگر اس کو تعبیر کی صورت ملنا مشکل ہوگا۔

ایسے میں ضروری ہے کہ والدین جو بچے کی صحت، لباس اور دیگر جسمانی ضروریات کیلئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہیں اور دن رات ایک کرکے خوب محنت کرتے ہیں توبچے کی خاطر اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں کیونکہ صحت مند جسم پر خوبصورت لباس کے باجود اگر کوئی بچہ مناسب تربیت سے محروم ہو اور منفی رویے اس کی شخصیت کا حصہ بنتے جار ہے ہوں تو یہ اسی طرح تشویش اور فکر کی بات ہے جس طرح بچے کا جسمانی طور پر بیمار ہونا۔ یہ الگ بات ہے کہ جسمانی بیماری کا علاج کم وقت لیتا ہے اور جلد ہی بیماری سے افاقہ ہوجاتا ہے،

دوسری صورت میں بیمار ذہینت، یعنی منفی رویے اور رجحانات اگر شخصیت کا حصہ بن جائیں تو اس کی اصلاح کا عمل بہت طویل  اور صبر آزماہوسکتا ہے۔جس سے اکثر حالات میں کنی کتراتے ہوئے دوسروں پر الزامات دھرنا آسان نظر آتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسی  راستے کو اختیار کرلیتے ہیں جو مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کی جڑ ہے۔