کتابی شخصیت

جس طرح ایک ڈرائیور موشن ٹوٹنا گوارا نہیں کرتا اور چاہے اس کیلئے ٹریفک قواعد، کسی کے سر پیر اور کیا کچھ توڑنا پڑے۔اسی طرح ہمارے ایک اُستاد محترم اپنی چال کو جان سے عزیز رکھتے اور چاہے کتنی ہی ایمرجنسی ہو وہ اپنے مخصوص انداز میں ہولے ہولے قدم اٹھاکر چلنے کے ہی رواد ار تھے اور کہتے تھے کہ دوڑنا وقار کے خلاف ہے جو میری کتاب میں نہیں اور ساتھ ہی شاگردوں کو بھی تاکید کرتے کہ چال میں وقار رکھو، دوڑنے سے وقار میں کمی آتی ہے اور اس اصول پر استاد محترم سختی سے عمل پیرا رہے،کئی بار تو ایسا ہوا کہ انہوں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا وہ بھی کتابی انداز میں یعنی ہاتھ سے نہیں بلکہ انگلی سے اور ظاہر ہے ڈرائیور صاحب بہ مشکل ہی ان کے کتابی اشارے کو سمجھتے اس لئے بس بیس قدم آگے جا کر رک گئی، اب کنڈکٹر چیخ چیخ کر آوازیں دیتا کہ صاحب ذرا تیز قدم لو، مگر استاد محترم کنڈکٹر کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مخصوص چال پر ہی قائم رہے۔
 بالآخر سواریوں کے کنڈکٹر پر چیخنے کے بعد وہ استاد کو آواز دیتا، کہ چھوڑو! اس کا جانے کا موڈ نہیں اور یہ تو معلوم حقیقت ہے کہ کنڈکٹر جانے والے کے موڈ کا اندازہ اس طرح لگاتا کہ جس کا موڈ ہو وہ جوتے ہاتھ میں پکڑ کر سرپٹ دوڑتا ہوا،گرتا پڑتا چلتی گاڑی کے دروازے سے لٹک جاتا اورکنڈکٹر سمجھ جاتا کہ یہ سواری گاڑی میں بٹھانے کے لائق ہے۔اس پیمانے پر ہمارے استاد محترم گاڑی میں بٹھانے کے کوائف کبھی پورے نہیں کر پائے اور یوں ہر دفعہ باوقار انداز میں، ہولے ہولے پانچ قدم لینے کے بعد استاد محترم رُک جاتے اور دھواں چھوڑ کر،دُھول اُڑا کر جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتے ہوئے اب آنے والی گاڑی کاانتظا رکرنے لگتے۔
 ایسے میں اتفاق سے جو گاڑی بالکل محترم استاد کے سامنے ناک کی سیدھ میں رُک جاتی اس میں سوار ہوتے اور یہ مرحلہ آنے میں کبھی کبھار گھنٹے گزر جاتے۔یہ کتابی اصولوں اور قواعد کے تحت زندگی گزارنے والے محض ہمارے اُستاد محترم نہیں تھے بلکہ ہمارے ایک ساتھی جو کرکٹ کا شوق پالتے تھے اور کسی نے ان کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ مشہور زمانہ بیٹر ڈان بریڈ مین کتابی سٹروک کھیلتے تھے۔ اسلئے تو ان کا اتنا بڑا نام ہے۔
 اس لئے انہوں نے ایک پرانی ضحیم کتاب کہیں سے پیدا کرلی جس میں کتابی سٹروک موجود تھے اور چونکہ موصوف بیٹ اور بلے کی بجائے زیادہ تر کتاب ہاتھ میں اٹھائے رکھتے اسلئے تو یار دوست کہتے کہ وہ کرکٹ کھیلتے نہیں بلکہ پڑھتے ہیں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کتاب اٹھاتے اٹھاتے ان کیلئے اب بیٹ کا وزن سنبھالنا مشکل ہوتا گیا اور جب تک وہ بیٹ اٹھاتے اور کتاب کے مطابق سٹرو ک کھیلنے کی پوزیشن میں آتے۔ وکٹیں کتاب کے اوراق کی طرح ہوا میں اڑتیں۔
یوں کسی میچ میں ان کا سکور ڈبل فگر میں داخل نہیں ہوا۔جب کوئی ان سے پوچھتا، جناب سکور بورڈ پر آپ کے نام کے سامنے ڈبل فگر کب آئے گا تو موصوف جواب دیتے کہ، کتابی سٹروک سے بنا ایک رن غیر کتابی سٹروک کے سو رنز سے زیادہ قیمتی ہوتاہے اور یوں اپنے رنزوں کی قدر وقیمت لگا لگا کر وہ اپنے آپ کوبے پناہ رنزوں کا مالک ثابت کرتے اور کسی کے منہ سے انکار سننا بھی ان کی کتاب میں نہیں تھا۔