ماہرین کے دیس میں

 اس کرہ ارض پر کم از کم ایک ملک ایسا ہے جہاں کا ہر کوئی ہر کام میں ماہر ہے‘ سوائے اپنے کام کے۔ کیونکہ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ماہرین جس کام میں اپنی مہارت کی دھاک بٹھاتے ہیں وہ  کرتے نہیں  اور جو کام کرتے ہیں اس میں مہارت حاصل کر نا ضروری نہیں سمجھتے۔ایک ٹیکسی ڈرائیو ر کے پاس بیٹھ جائیں تو وہ اپنی گاڑی چلانے سے نالاں اور ملک چلانے والوں کی عقل پر حیران‘ سمجھتا ہے کہ اگر ایک دن اسے ٹیکسی کی بجائے ملک چلانے کا موقع دیا جائے تو  وہ ملک کی حالت بدل کر رکھ دے گا۔پھر وہ اپنے ان تمام فارمولوں کو آپ کے سامنے ڈھیر کر دے گا جو اس نے ٹیکسی چلاتے ہوئے ملک چلانے کے لئے ایجاد کئے۔آپ کسی  ہیئر سیلون میں گھسیں تو وہاں آپ کو ملک کی خارجہ پالیسی کے ماہرین کی ٹیم تیار ملے گی، جوملک کی خارجہ پالیسی پر بحث میں مشغول ہے‘ہر کوئی اپنی بات منوانے پرتلاہواہے اور دوسرے کی آواز کو دبانے کی اپنی مہارت کو بھی بروئے کار لارہا ہے۔  اتفاق رائے کا بھی دو ر دور تک نام و نشان نہیں، ہر کوئی دوسرے پر اپنی مہارت کاسکہ جمانے کی کوشش میں ہے ان سب کو لقمہ دینے والا ایک طرف قینچی چلا رہا ہے اور دوسری طرف ان سب کو مہارت کے ساتھ گرما بھی رہا ہے۔ان ماہرین کے مطابق ملک کی خارجہ پالیسی یکسر غلط سمت میں جار ہی ہے۔ جن ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں وہ دراصل دشمن ہیں اور جو ممالک مخالف بلاک میں نظر آرہے ہیں ان کے ساتھ دوستی میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہاں پر دوستوں کے جنگ اور دشمنوں کو گلے لگانے کیلئے ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔کسی بھی سکول یاکالج کے سٹاف روم میں جائیں تو وہاں آپ کو ٹریفک کنٹرول کرنے کے ماہرین ملیں گے جو آناً فاناً شہر میں کئی اوورہیڈ پل بنا نے اور موجودہ پلوں کو منہدم کرنے میں مشغول ہیں۔فلاں محلے کو اٹھا کر دوسرے محلے کی جگہ سیٹ کرنے اور فلاں سڑک کو گھسیٹ کر شہر سے باہر لے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان کے خیال میں جہاں گنجان آبادی ہے وہاں پر ایک تفریحی پارک ہونا چاہئے تھا۔ جہاں پر تفریحی پارک ہے وہاں پرجی ٹی روڈ کو گزارنے کا موقع ضائع کیا گیا ہے اور جہاں پر جی ٹی روڈ ہے اس جگہ پررہائشی کالونی ہوتی تو لوگوں کو جی ٹی روڈ استعمال کرنے میں آسانی ہوتی۔ایک پرائمری سکول میں ہسپتالوں کے حوالے سے مثالی اور موثر نظام کے حوالے سے غو ر وخوض جاری ہے،دوسرے ممالک کی سنی سنائی باتوں کو نچوڑ نچوڑ کر عرق ریزی کی جار ہی ہے، کہ کس طرح باہرصحت کی سہولیات انسانوں کو کیا جانوروں کو بھی میسر ہیں،باہر ممالک کے تعلیمی ادارے کیسے ہیں یہ اگر ان کو معلوم بھی ہے تو اس بارے میں نہیں بولیں گے کیونکہ جو لطف دوسروں کی کمزوریوں کو پکڑنے اور  مزے لے لے کر اس کا تذکرہ کرنے میں ہے وہ اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنے اور اس کی اصلاح کرنے میں کہاں۔ اس لئے تعلیم کے حوالے سے تبادلہ خیال ان کے موضوع میں شامل نہیں کیونکہ اس موضوع پر بات کرنے کیلئے ڈاکٹر حضرات موجود ہیں جو تعلیمی ڈھانچے  کی کمزوریوں پر نظر جمائے ہوئے ہیں‘اس سے فراغت ہو تو اپنے شعبے کی بھی باری آجائے گی۔یعنی ہمارے ہاں ہر کوئی دوسرے کے کام میں مہارت تلاش کرتا ہے،ذرا سی کمی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اس میں  میخ نکال کر اپنی مہارت جتاتا ہے تاہم یہی صاحب جو دوسرے کے کام میں کمال کی مہارت کامتلاشی ہے اپنے کام میں چل چلاؤ کا قائل ہے۔پوچھو تو جواب دے گا، کہ مجھے جو مل رہے ہیں اس میں یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ سبزیاں اور پھل مہنگا بیچنے والوں کا قلع قمع کرنے اور ان کا قبلہ درست کرنے کا مشورہ دینے والا قصاب کہتا ہے کہ اگر اسے موقع ملا تو ایسے لوگوں کی وہ چمڑی ادھیڑ دے، گوشت فروخت کرنے والوں کو کون درست کرے گایہ سوال ان سے پوچھنا اس لئے مناسب نہیں کہ ان کے پاس چھری ہے اور پھر وہ بد قسمتی سے اسے چلانے میں ماہر بھی ہے۔