حالیہ سیلاب سے کیمپوں میں موجود خواتین کی مشکلات 

فاطمہ نازش
تین چھوٹے بچوں کا ساتھ اور اس پر یہ کہ دو شیر خوار، نوشہرہ کی 27سالہ گل بی بی ایک بار پھر حاملہ ہیں ، لیکن اس بار ان کے لئے مشکلات گذشتہ حالات کے مقابلے میں کئی زیادہ ہیں گل بی بی سیلاب متاثرہ ان ساڑھے چھ لاکھ خواتین میں شامل ہیں جو اس بار آنے والے بچے کو اپنے گھر کی بجائے کسی امدادی کیمپ میں جنم دیں گی ، حالیہ سیلاب سے خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں تیس ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے ستر فیصد سے زیادہ ہیں ، پاکستان کی تاریخ کے اس ہولناک سیلاب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ، اس پر المیہ یہ کہ ان افراد میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین بھی ہیں جنہیں زچگی اور بچے کی پیدائش کے حوالے سے صحت کی سہولیات کی اشد اور فوری ضرورت ہے ، ادارہ شماریات کے مطابق ستمبر کے مہینے میں سیلاب زدہ علاقوں میں تہتر ہزار سے زائد عورتوں نے بچوں کو جنم دیا لیکن یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا ان کے پاس حکومتی سطح پر صحت کی سہولت اور مالی معاونت پہنچی؟
 
چارسدہ افغان مہاجر سیلاب متاثرہ خواتین مسیحا کی منتظر !
حسن خیل سردریاب چارسدہ میں دریا کنارے افغان مہاجرین اپنی جھونپڑیاں بسائے جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے مگر سیلاب نے نہ صرف ان کی عمر بھر کی جمع پونچی پر پانی پھیر دیا بلکہ تباہی بربادی کی ایسی داستان رقم کی جس سے سنبھلنے میں انہیں سالوں لگیں گے اس بستی میں تیس سے زائد خاندانوں کے ڈھائی سو کے قریب افراد موجود ہیں سیلاب گزرنے کے ایک ماہ بعد بھی ان کے پاس نہ کوئی بین الاقوامی ادارہ امداد کو آیا نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی پرسان حال ملا ، تین ہفتے بعد فلاحی تنظیم الخدمت کی جانب سے سر چھپانے کو خیمے مل گئے مگر یہ ان کی مشکلات کا حل نہیں ، مہاجر خاتون وگمہ نے بتایا کہ اس وقت یہاں دس کے قریب حاملہ خواتین موجود ہیں وہ بتا رہی تھیں کہ ان کی دیورانی بھی آئندہ کچھ روز میں پہلے بچے کی پیدائش کے عمل سے گزریں گی لیکن وہ کم عمر ہیں ہمارے پاس نہ اسپتال تک جانے کے پیسے ہیں نہ دوا لانے کے ، ایسا لگتا ہے کہ ان کا بچہ یہیں خیمہ میں پیدا ہوگا مگر مجھے ڈر ہے کہ ان کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو ، وگمہ نے مزید بتایا کہ سیلاب آنے سے قبل ان کی حاملہ خواتین پشاور لیڈی ریڈنگ اسپتال یا پھر قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس نوشہرہ جاتی تھیں لیکن ایسے وقت میں کہ جب سیلاب ان کا سب کچھ بہا لے گیا اب ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ آنے جانے اسپتال کے ٹیسٹوں اور ادویات کا خرچہ برداشت کریں ، ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے دو ہفتے بعد ہی ان کی برادری کی ایک خاتون کے ہاں بزرگ دائی کے ہاتھوں میں بچے کی ولادت ہوئی جس کی دیکھ بھال بستی کی تمام خواتین نے مل کر کی ، سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین کی صحت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کی سینئر اسٹاف نرس شائشہ جدون کہتی ہیں کہ یہ مسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرسکتا ہے حاملہ خواتین کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے نتیجتا امیونٹی کم ہونا بیہوشی یا دورے کا سبب بن سکتی ہے ،وہ اسٹوکسکس شاکسن روم میں جاسکتی ہیں جس میں موت کا خدشہ ستر تا اسی فیصد ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ معاملے کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے اپنی دو نرس بہنوں اور ڈاکٹر شوہر کے ہمراہ خیبر پختونخوا کے مختلف سیلاب متاثرہ اضلاع میں خواتین کے چیک اپ اور مفت ادویات کی فراہمی کے لئے میڈیکل کیمپس لگائے ساتھ ہی وہ خواتین کو آگاہی بھی فراہم کر رہی ہیں کہ کس طرح وہ کم وسائل میں اپنی اور اپنے بچوں کی صحت اور صفائی کا خیال کرسکتی ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ افسوس یہ ہے کہ ہم ان متاثرین کو پینے کا صاف پانی تک مہیا کرنے کا مناسب بندوبست نہیں کرسکتے

سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کے دیگر مسائل !
سیلاب متاثرہ حاملہ خواتین کی مشکلات تو اپنی جگہ مگر ان علاقوں میں موجود دیگر خواتین اور لڑکیاں بھی صحت کے حوالے سے بڑے خطرات سے دوچار ہیں بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے رفع حاجت کے مسائل بھی سنگین ہیں وہیں نہانے دھونے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ، کھلے آسمان تلے گندگی کے ڈھیر پر روزوشب گزارنے والی بچیاں اور عورتیں صحت اور صفائی نہ ہونے کے باعث بیماریوں اور انفیکشنز کا آسان ہدف بن رہی ہیں ، خصوصا ماہانہ ایام میں مناسب دیکھ بھال اور صفائی کے فقدان کے حوالے سے ایل آر ایچ پشاور کی ڈاکٹر زلندہ کا موقف ہے کہ ایسی صورتحال میں حفظان صحت سے لاپرواہی یا سہولیات کا عدم حصول ڈائریا ، چھوٹے پیشاب کے انفیکشن یہاں تک بچہ دانی کینسر سمیت خواتین کی دیگر تشویشناک بیماریوں کا سبب ہوسکتا ہے ، پشاور میں خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے بنائی جانے والی تنظیم فیمینسٹ فرائیڈے کے پلیٹ فارم سے متعدد خواتین ممبرز اس مسلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سیلاب کے ابتدائی دنوں سے ہی متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل ممکن بنا رہی ہیں ، لیکن ان کی جانب سے بھیجا جانے والا سامان دیگر امدادی سامان سے مختلف ہے اس حوالے سے تنظیم کی سرگرم کارکن صائمہ کا کہنا ہے کہ بلاشبہ راشن پانی اس وقت سیلاب متاثرین کی بنیادی ضرورت ہے تاہم ایسے وقت میں خواتین کی بھی کچھ فطری اور بنیادی ضروریات کی جانب توجہ انتہائی اہم ہے لہذا ان کی تنظیم نے ہائجین کٹس پر مشتمل دو طرح کے امدادی پیکجز بنائے ایک جس میں سینٹری پیڈز ، تولیے ، صابن ، شیمپو بالخصوص اینٹی لائس شیمپو ،ٹوٹھ پیسٹ ، ناخن تراش ، کنگھیاں حتی کہ سوئی دھاگہ بھی رکھا گیا ، دوسرا پیکج حاملہ خواتین کی ضرورت کے مطابق تھا جس میں ماں اور نوزائیدہ بچے کی ابتدائی ضروری اشیا اور کچھ ادویات تھیں ، پشاور میں کئی دیگر تنظیمیں اور انفرادی طور پر بھی خواتین نے سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کے مسائل اور وسائل کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے ہی پیکجز بنا کر روانہ کئے ہیں ، سیلاب متاثرہ ضلع نوشہرہ کی اے ڈی سی قرةالعلین وزیر کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ تمام تر مسائل سے آگاہ ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت کے پاس اتنے فنڈز یا وسائل نہیں کہ متاثرین کی ان ضروریات کو پورا کرسکتے ، لیکن موجودہ حالات میں جو پہلی کوشیش ہےں وہ بے گھر خاندانوں کی بحالی اور آبادکاری ہے ، یہ المیہ صرف خیبر پختونخوا میں نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان سیلاب متاثرین کا بھی ہے ان سیلاب متاثرین بالخصوص کیمپس اور پناہ گاہوں میں مقیم خواتین کی صحت کے حوالے سے ناکافی بنیادی سہولیات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر آباد کاری اور بحالی کے لئے کئے گئے اقدامات میں تاخیر ہوئی تو آنے والے دن ان کی زندگیوں میں سیلا±ب سے بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔