خیبر پختونخوا: چھاتی کے کینسرمیں اضافہ ، اکثریت علاج سے گریزاں   

رپورٹ : فاطمہ نازش

پشاور کی رہائشی ساٹھ سالہ خورشید بیگم لگ بھگ تین برس بعد امریکا سے لوٹی ہیں یوں تو وہ اپنے چھوٹے بیٹے اور بہو جو امریکی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم ہی کہ ہاں ہر سال تین ماہ سے زائد نہیں گزارتیں مگر اس بار کورونا وائرس نے انہیں امریکا میں قیام طویل کرنے پر مجبور کردیا تھا ، خورشید بیگم شوہر کی وفات کے بعد گھرانے کی سربراہ ہیں ان کی آمد پر چھوٹے بڑے والہانہ انداز میں آو بھگت میں مشغول ہیں تاہم چھاتی کے سرطان کو شکست دینے والی خورشید بیگم خوشیوں بھرے اس ماحول کو دیکھ کر رب کریم کی ذات کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتیں ہیں جس نے انہیں ایک نئی زندگی بخشی اور وہ اپنی اولاد کے ساتھ اسے بھرپور انداز میں گزارنے کے قابل بنیں ، خورشید بیگم کو پینتالیس سال کی عمر میں چھاتی کے کینسر کی اس وقت تشخیص ہوئی جب وہ ایک سکول میں بطور پرنسپل خدمات انجام دے رہی تھیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ان کے خاندان میں کبھی کسی کو یہ موزی مرض لاحق نہیں ہوا لہذا شروعات میں تو اس تلخ حقیقت کو قبول کرنا ہی ایک چیلنج تھا لیکن شوہر اور بچوں کی بھرپور محبت اور توجہ نے انہیں اس قابل بنایا کہ نہ صرف وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے بلکہ کیمو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کو بھی تیار ہوئیں ، وہ مزید بتا رہی تھیں کہ مرض کی تشخیص سے کچھ ماہ پہلے وہ غیر معمولی تبدیلی محسوس کرنے لگی تھیں پھر انہوں نے نا محسوس طریقے سے خود ہی اپنی چھاتی کا معائنہ شروع کردیا لاشعوری طور پر انہیں خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دینے لگی کئی روز تک شرم وحیا اور عزیز رشتہ داروں کو پتہ چلنے کی کشمکش میں رہنے کے بعد انہوں نے شوہر کو سارا معاملہ بتانے کا فیصلہ کیا ، ساری بات سنتے ہی خورشید بیگم کے شوہر مجید صاحب انہیں فورا معائنہ کے لئے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے رپورٹس آنے کے بعد چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص کردی ۔۔۔۔  

خیبر پختونخوا میں چھاتی کے سرطان کی شرح پاکستان میں ہرسال ایک لاکھ سے زائد جبکہ خیبر پختونخوا میں سالانہ پندرہ ہزار سے زائد خواتین کی بطور بریسٹ کینسر متاثرہ رجسٹریشن کی جاتی ہےطبی ماہرین کے مطابق اگر باقاعدہ طور پر ڈیٹا جمع کیا جائے تو یہ تعداد اس سے کئی زیادہ نکلے گی تاہم خیبرپختونخوا پاکستان میں چھاتی کے کینسر پر قابو پانے کا پروگرام شروع کرنے والا پہلا صوبہ ہے جس نے 2020 میں اس مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے تحت کے پی کے سات ڈویژنز ،،پشاور بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ، کوہاٹ، مالاکنڈ اور مردان میں جدید میموگراف مشینوں کی فراہمی کی گئی ہے ، چھاتی کے کینسر کے سرکاری سطح پرآسان اور سستےعلاج کے لئے واحد ادارہ ارنم ہے ، جہاں صحت کارڈ کےتحت ستر ہزار تا ایک لاکھ تک کی کیموتھراپی، ریڈیو تھراپی ، اور ٹارگٹڈ تھراپی مفت ہے ، لیکن  یہاں بھی مریضوں کو خون کے ٹیسٹوں اور اسپتال کی فیس کی مد میں رقم ادا کرنا ہوتی ہے، تاہم یہاں آپریشن کی سہولت مئیسر نہیں اس کے لئے مریضوں کو لیڈی ریڈنگ ، خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا جاتا ہے ،دیگر نجی اسپتالوں سمیت شوکت خانم میں علاج کا پیکج جو کم ازکم تین لاکھ کا بنتا ہےغریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہے، پشاور کے ارنم اسپتال میں کینسر کے علاج کی غرض سے آنے والی سینکڑوں خواتین میں ارم بھی شامل ہیں جن کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے، 38سالہ ارم کو ڈیڑھ برس قبل بریسٹ کینسر کی دوسری اسٹیجکے تقریباً اختتام پر ہی اس مرض کئ تشخیص ہوئی ارم نے بتایا کہ یہ خبر ان پر ان کے خُاندان پر پہاڑ بن کر ٹوٹی  ابتدا میں تو انہوں نے سرکاری اسپتالوں کا ہی رخ کیا جہاں مریضوں کے رش کے باعث انہیں آپریشن کی تاریخ جلد ملنا ممکن نہ تھا ،ان کی بگڑتی صحت کو دیکھتے ہوئے ان کے شوہر نے ان کا علاج نجی سطح پر کروانے کا فیصلہ کیا جس کے لئے انہیں اپنا ڈھائی مرلے کا گھر فروخت کرنا پڑا ، اسی رقم سے پرائیویٹ ڈاکٹرز اور اسپتال میں ان کی کیموتھراپیز اور سرجریز ہوئیں ، ان کی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ایک جاننے والے نے اپنے تعلق کی بنا پر انہیں ارنم اسپتال میں رجسٹرڈ کروا دیا جہاں اب وہ اپنے شیڈول کے چیک اپ اور ادویات کے لئے باقاعد گی سے آتی ہیں   

پاکستان میں سرکاری سطح پرصحت کے محدود وسائل ، غریب طبقہ بریسٹ کینسر کے لاکھوں روپے کے علاج سے قاصر !

 چھاتی کے سرطان کے حوالے سےایک پہلو خواتین کا شرم وحیا کی وجہ سے اس مسلے کو چھپانا ہے لہذا ساٹھ فیصد سے زائد خواتین مرض کے پھیلنے تک قیمتی وقت گنوا چکی ہوتی ہیں اور ایسے میں مرض کی شدت کے ساتھ اس کے علاج پر آنے والی لاگت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے ، خیبر پختونخوا مالاکنڈ ڈیویژن سے تعلق رکھنے والی شبانہ بی بی کا تعلق ایک غریب  گھرانے سے ہے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ماجرا پیش آیا جنہیں بریسٹ کینسر کی تشخیص تیسری اسٹیج پر ہوئی جو ایک خطرناک مرحلے پر تھی ان کے خاندان والے انہیں پشاور کے شوکت خانم لائے جنہوں نے شبانہ کو شوکت خانم لاہور جانے کا کہا ان کا کہنا تھا کہ وہاں انہیں بتایا گیا کہ پینتالیس سال سے اوپر اور دوسری اسٹیج کے بعد یہاں انہیں علاج کی تمام سہولیات مفت مئیسر نہیں ہوں گی ، اور اس کے علاوہ بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ، ان کئ دن بدن گرتی صحت کو دیکھتے ہوئےان کے اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد کی مالی معاونت  سے پرائیویٹ سطح پر ان کا علاج اب اسلام آباد کے ایک اسپتال میں جاری ہے اور مرض کے تاخیر سے تشخیص ہونے کے سبب سرجری کے نتیجے میں اب تک وہ اپنے ایک پستان سے محروم ہوچکی  چھاتی کا سرطان ( بریسٹ کینسر ) کیا ہے ؟ چھاتی کا کینسر خواتئن کو ہونے والے کینسر میں سب سے زیاد شرح رکھتا ہے عمومی طور پر اس مرض کی شکار پچاس تا ساٹھ سال کی ادھیڑ عمر عورتیں ہی ہوتی تھیں لیکن حالیہ برسوں میں یہ مرض چالیس سال یا اس سے بھی کچھ کم عمر کی خواتئن کو متاثر کررہا ہے ، قابل ذکر امر یہ ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ ملکوں کی عورتوں کو بھی یہ مرض اسی تناسب سے اپنا شکار بنا رہاہے ، موزی مرض کی تشخیص اور علاج سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کام کرنے والی  ڈائریکٹر جنرل پبلک ہیلتھ سروسزڈاکٹر سائرہ کے مطابق بریسٹ کے ڈکٹس اور لوبلز کی بافتیں ( ٹشوز)  میں جب غیر معمولی اور بے ترتیب نشونما کا آغاز ہوجائے تو یہ چھاتی کے کینسر کی شروعات ہے ۔انکا کہنا ہے کہ ’ابنارمل نشونما کی وجہ سے اگر آپ کو بریسٹ پر گلٹی یا لمپ محسوس ہو تو یہ ممکنہ طور پر کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔‘بالکل ایسے ہی گلٹی یعنی ڈِپ ہو یا دونوں یا ایک پستان سخت ہوتو یہ بھی ممکنہ علامت ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر نِپل سے دودھ کے علاوہ کسی بھی قسم اور رنگ کا ڈسچارج ممکنہ طور پرسرطان کی علامت ہوسکتا ہےہو سکتاجس کی تصدیق کے لیے ہسپتال سے بروقت ٹیسٹ کی ضرورت ہے ڈاکٹر سائرہ کے مطابق اگر یہ تمام علامات بغل میں ہوں تو بھی یہ چھاتی کا سرطان  ہو سکتا ہے۔ چھاتی کے سائز، ساخت یا ایک پستان کی دوسرے پستان سے مختلف نظر آنے کی علامات کو بھی خصوصا جانچا جانا چاہئے ۔لہذا خواتین کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کو نظر انداز کئے بغیر فوری ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں ،بریسٹ کینسر کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھنے والی ڈائریکٹر کریٹیو DHGS-KP ڈاکٹر سعیدہ بی بی کہتی ہیں کہ جن خواتین کو چھاتی کا سرطان ہوچکا ہے ان کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اس حوالے سے باخبر رکھیں کیونکہ عام خواتین کے مقابلے میں ان خواتین کو بریسٹ کینسر کا خطرہ دُگنا لاحق ہوتا ہے جن کی مائیں اس خطرناک مرض میں مبتلا رہ چکی ہوں ان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری موروثی اورنسل در نسل ملنے والی ہےتوایسی صورتحال میں احتیاط اور بروقت تشخیص متاثرہ خاتون کی زندگی بچا سکتی ہے

چھاتی کے کینسرکے اسباب ! 

بلوغت کے بعد عورت کی چھاتی چربی جوڑنے والے ٹشو اور ہزاروں خلیوں پر مشتمل ہوتی ہے یہ چھوٹے غدود ہیں جو دودھ پلانے کے لیے دودھ تیار کرتے ہیں۔ چھوٹی ٹیوبیں یا نلیاں دودھ کو نپل کی طرف لے جاتی ہیں۔کینسر ان خلیوں کو بے قابو کرنے کا سبب بنتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے چکر میں معمول کے مقام پر نہیں مرتے۔ سیل کی بہت زیادہ نشوونما کینسر کا سبب بنتی ہے کیونکہ ٹیومر غذائی اجزاء اور توانائی کا استعمال کرتا ہے اور اس کے ارد گرد کے خلیوں کو محروم کرتا ہے۔چھاتی کا کینسر عام طور پر دودھ کی نالیوں یا اندرونی پرتوں سے شروع ہوتا ہے جو انہیں دودھ فراہم کرتے ہیں۔ وہاں سے ، یہ جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل سکتا ہےچھاتی کے کینسر کے چار مراحل ہیں ابتدائی دو میں یہ مرض ادویات اور کیمو کے ذریعے قابل علاج ہوتا ہے جبکہ تیسرا اور چوتھا مرحلہ تشویشناک صورتحال اختیار کرسکتا ہے۰چھاتی  کے سرطان کا علاج بریسٹ کینسر کا علاج اسٹیجز کو مدنظر رکھ کر ہی کیا جاتا ہے ، دنیا بھر میں بریسٹ کینسر کے علاج کے مروجہ طریقے یہ ہیں ،چھاتی کا سرطان اگر  پہلی سٹیج میں ہے تو لمپ یا گلٹی نکالی جاتی ہے، اس عمل کو لمپیکاٹومی کہتے ہیں۔ کینسر اگر دوسری سٹیج میں ہے تو اس صورت میں گلٹی کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی لمپیکاٹمی کی جاتی ہے۔ ابتدائی دواسٹیجز میں بیشتر مریضوں کو کیمو تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ اس بات کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ کم از کم پانچ سال تک ایسا کوئی لمپ نہیں بنے گا۔ تیسرےاور چوتھے مرحلے میں بریسٹ کینسر خوفناک شکل اختیار کرلیتا ہے ایسی صورت میں علاج کا طریقہ کیمو تھراپی ہی ہے یا سرجری کے ذریعے پورے پستان کو ہی جسم سے کاٹ لیا جاتا ہے۔کیموتھراپی کینسر کے خلیات کو تباہ کرتی ہے لیکن اس کے کئی مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔زیادہ تر مریضوں کو کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جاننے کے لیے کہ کیا مریض کو کیمو تھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں، آنکوٹائپ ڈی ایکس نامی ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ بریسٹ کینسر کے دوبارہ ہونے کے کیا امکانات ہیں یا کینسر کتنا خطرناک ہے۔ اس مہنگے ٹیسٹ پر کم از کم تین لاکھ کی لاگت آتی ہے ۔

بریسٹ کینسر پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ کیسز والا ملک !

 پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے سب سے زیادہ 25928 کیسز  2020 میں رپورٹ ہوئے، جبکہ 09 میں سے ہر 01 خاتون  کو اپنی زندگی میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ لاحق ہے۔ڈائریکٹر کیوریٹو DHGS-KP ڈاکٹر سعیدہ بی بی نے بتایا کہ چھاتی کی کینسر دنیا بھر میں خواتین میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر سعیدہ نے بتایا کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک نے اس مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور انہوں نے صحت کے بہتر نظام، اسکریننگ، آگاہی، جلد تشخیص اور علاج کی وجہ سے اس بیماری پر قابو پالیاہے اور  اموات میں کمی ہوئئ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا  کہ 2020 میں دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے 2.26 ملین نئے کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک اور جنوبی ایشیا میں پاکستان میں 2020 میں سب سے زیادہ 25,928 (14.5%) کیسز سامنے آئے ہیں,ڈاکٹرسعیدہ نے اس بات پر زور دیا کہ چھاتی کے کینسر کے واقعات کو روک تھام، اسکریننگ اور جلد تشخیص کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے، رضاعت کی مدت تک بچے کو دودھ پلانے والی ماووں میں بھی یہ خطرہ 80فیصد تک ٹل سکتا ہے ، معاشرتی دباو کے سبب 70 فیصد خواتین معالج تک پہنچتے پہنچتے تشویشناک صورتحال اختیار کرلیتی ہیں حالانکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وقت پر کئ گئی تشخیص میں جان بچنے کا امکان  90فیصد ہے ،  ان کا کہنا تھا کہ صحت کے نظام میں بہتری اور لوگوں میں بیداری پیدا کرکے بیماری کے اس بھاری بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔جس کے لئے ضروری ہے کہ تمام خواتین خاص طور پر جن کی عمر 40 سال سے زیادہ ہے یا جن کی خاندانی تاریخ چھاتی کے کینسر کی ہے انہیں اسکریننگ کے لیے بنیادی مراکز صحت میں جا کر ضرور معائنہ کرنا چاہیئے۔ڈپٹی ڈائریکٹر کیوریٹو DGHS-KP ڈاکٹر عباس خان جو ہر سال بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی سیمینار اور ورکشاپس منعقد کرتے ہیں کے مطابق پاکستان میں کوئی مخصوص اسکریننگ سینٹرز قائم نہیں ہیں لیکن سرکاری اور نجی سطح پر سہولیات دستیاب ہیں، خیبر پختونخوا میں بھی سرطان کے مرض میں مبتلا خواتین کو ہر ممکن علاج معالجہ کی سہولت دینے کی کوشیش جاری ہیں، دوسریجانب  پندرہ سال گزرنے کے بعد آج صحت مند زندگی گزارتے ہوئے خورشید بیگم نے اپنی زندگی کا مقصد  بریسٹ کینسر کی آگاہی کو ہی بنا لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ خاندان اور دوست احباب میں دیگر لڑکیوں اور خواتین کو بھی گاہے بگاہے بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی رہتی ہیں ، کیونکہ اس وقت اگر انہیں فوری علاج کی سہولت مئیسر نہ آئی ہوتی تو شائد وہ آج اپنے بھرے پرے خاندان کے درمیان موجود نہ ہوتیں۔