کزن میرج کے نتیجے میں ہونے والی نایاب بیماری "ولسن ڈیزیز" 

کزن میرج کے نتیجے میں ہونے والی نایاب بیماری "ولسن ڈیزیز" 

رپورٹ: فاطمہ نازش
اٹھارہ سالہ سونیا وہیل چئیر پر بیٹھی ہے تکلیف کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہیں لیکن پاس بیٹھے والد کی دلجوئی کے سبب وہ ہلکے ہلکے مسکرا رہی ہے ،پشاور سے تعلق رکھنے والے امیر علی کو ایک موروثی بیماری کے نتیجے میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہونے والی بیٹی سے والہانہ محبت ہے ، امیر علی نے اس بیماری کے بارے میں بتایا کہ اسے ولسن ڈیسیز کہتے ہیں اور وہ سونیا سے قبل بھی اپنے ایک لخت جگر کو اسی بیماری کے سبب کھو چکے ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ بارہ برس کی عمر تک ان کے بچے زندگی سے بھرپور ہشاش بشاش تھے لیکن اس کے بعد اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں اور محض چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں ہی اپنے پاو¿ں پر چلنے دوڑنے والے بچے وہیل چئیر پر آگئے،سونیا کے والد کے مطابق ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ یہ بیماری موروثی بیماری ہے اور زیادہ تر کزن میرج یعنی خاندان میں کی جانے والی شادیوں کے نتیجے میں سامنے آتی ہے اور اگر کبھی باپ کے دادا پردادا کو بھی ہوئی ہو تو آنے والی نسلوں کو منتقل ہوسکتی ہے بھرائی آنکھوں اور رندھی آواز میں امیر علی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کی باتیں اپنی جگہ مگر انہوں نے اپنے پورے خاندان میں اس بیماری کو کسی کو لاحق ہوتے نہیں دیکھا۔
ولسن ڈیسیز کے حوالے سے ماہرین کی آراء
معروف اسپتال اسلام آباد میں خدمات انجام دینے والے نیورولوجی ایکسپرٹ ڈاکٹر وقار حفیظ کہتے ہیں کہ یہ ایک نایاب بیماری ہے جودنیابھرمیں تیس ہزار لوگوں میں سے ایک میں پائی جاتی ہے اس بیماری میں انسانی جسم میں خون بنانے میں اہم کردار اداکرنے والے تانبے کی مقدار جگرمیں جمع ہوتی رہتی ہے چونکہ یہ موروثی بیماری ہے تو اس کے تانے بانے آباو¿ اجداد سے ملتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ولسن ڈیزیز پانچ سال سے پینتیس برس کی عمرکے دوران کبھی بھی ظاہر ہوسکتی ہے۔اس مرض کے حوالے سے پہلی بار بیسویں صدی اوائل کے عظیم برطانوی نیورولوجسٹ سموئیل الیکزینڈر کینئیر ولسن نے 1912میں تحقیق کی ابتدا میں اسے hepatolenticular کا نام دیا گیا لیکن بعد ازاں اسے ولسن ڈیزیز کانام دیاگیا۔اس بیماری میں تانبہ خون سے الگ ہوکر جگر میں جمع ہونے لگتا ہے،جگر میں کسی قسم کی غیر معمولی علامت ظاہر ہونے پر تانبہ پروٹین کے ساتھ مل جاتاہے اورآنتیں تانبہ کواپنے اندر جذب کرناشروع کردیتی ہیں۔جس کے نتیجے میں ولسن ڈیزیز ظاہر ہو جاتی ہے۔اس مرض میں مریض کوبھوک کم لگتی ہے۔ بول چال میں دشواری محسوس ہوتی ہے کچھ مریضوں کو ابتدائی علامات کے طور پر یرقان ہوسکتا ہے اور جگر کے سائز میں اضافہ محسوس ہوتا ہے ، جسم میں لرزہ کی علامت بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔مریض کی جذباتی کیفیت میں بھی اتار چڑھاو¿ محسوس ہوتا ہے ،خون کی کمی کے سبب رنگت بھی زردی مائل ہوجاتی ہے الٹی، سر و بدن درد ،چہرے پر نقاہت بیزاری اورخوف کے آثارجبکہ قبض کی شکائت بھی رہتی ہے۔ ڈاکٹر وقار حفیظ کا مزید کہنا ہے کہ فوری طورپراس مرض کی تشخیص اور علاج مریضوں کو نارمل رکھنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ایسے مریض کی خوارک پر خصوصی توجہ دینی چائیے جو ان کے دل ودماغ کومضبوط رکھے،ابلی ہوئی اور سادہ غذا ہی بہترین ثابت ہوسکتی ہے، نیورولوجسٹ کے مطابق ایڈوانس اسٹیج میں بھی لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد ایسے مریضوں کو بیرون ممالک اور پاکستان میں بھی نارمل زندگی گزارتے دیکھا گیا ہے،اچھی خوراک کے ساتھ مریض کو روانہ کی بنیاد پر دواو¿ں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی عدم دستیابی سے ان کی حالت بگڑنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں پاکستان میں اس حوالے سے سرکاری سطح پر علاج معالجہ کی صورت حال کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ چونکہ یہ ایک مہنگا علاج ہے اور اس کے حوالے سے خاطر خواہ آگاہی بھی موجود نہیں تو فی الحال گورنمنٹ کی جانب سے اسپتالوں میں مریضوں کو اس حوالے سے سہولت حاصل نہیں ہے اور اس بیماری پر اٹھنے والے تمام اخراجات کا بندو بست لواحقین کوخود ہی کرنا ہوتا ہے۔ڈاکٹر وقار حفیظ کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کے حوالے سے اب تک کوئی جامع ڈیٹا موجود نہیں تاہم دنیا بھر میں اس کے جاری اعداوشمار کے مطابق دیکھا جائے تو پاکستان میں اس کی شرح انتہائی کم ہے۔
سونیا کے والد امیر علی جو پیشے کے لحاظ سے ایک موسیقار ہیں کہتے ہیں مہنگائی کے اس دور میں اتنا مہنگا علاج ان کے بس سے باہر ہے لیکن ادویات کی عدم دستیابی کی صورت سونیا کی بگڑنے والی طبیعت ناقابل برداشت ہوتی ہے، مخیر حضرات کے تعاون اور اپنی آمدن سے وہ جیسے تیسے اپنی بیمار بچی کا علاج تو کروارہے ہیں تاہم حکومت اور محکمہ صحت سے ان کی یہ اپیل ہے کہ اس بیماری کے حوالے سے علاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم کرنے کے علاو¿ہ خاندان میں شادیوں کے نتیجے میں ہونے والی ولسن ڈیزیز کی آگاہی بھی پھیلائی جائے۔.
 بیمار بیٹی کی تکلیف والدہ کے لیے بھی عمر بھرکی اذیت بن چکی ہے. حسینہ بی بی کا کہنا ہے کہ سونیا جو گزشتہ آٹھ نو برس سے اس بیماری سے نبرد آزما ہے اب تھک گئی ہے ، وہ مزید بتا رہی تھیں کہ چونکہ سونیا کا لیور متاثر ہے جس کے نتیجے میں سونیا کو ماہانہ ایام جیسے فطری عمل سے نہیں گزرنا پڑتا تاہم اسکے باوجود بھی ان کے لیے اپنی معذور بیٹی کو نہلانا دھلانا ، کھانا پلانا اور صفائی کا خیال رکھنا آسان کام نہیں لیکن ماں ہونے کے ناطے وہ بنا تھکے اور شکوہ کئے سونیا کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی ہیں وہیں سونیا بھی ماں کے علاو¿ہ کسی بہن بھائی سے کام لینا پسند نہیں کرتی با ہمت والدین کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز نے انہیں بتایا ہے کہ اس بیماری میں مریض کو بھرپورمحبت اورتوجہ سے خوش رکھا جاسکتا ہے کیونکہ وہ جسمانی طور پرمفلوج ہوا ہے ذہنی طور پر سب سمجھنے کے قابل ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان کے گھر کے سب ہی افراد سونیا کی ہر ممکن دلجوئی کی کوشش کرتے ہیں۔ 
 ولسن ڈیزیز سے متعلق آگاہی ضروری کیوں ؟
موروثی بیماریوں میں تھیلیسیمیا کے مرض کے حوالے سے معاشرے میں اب مکمل طور پر شعور اجاگر ہوچکا ہے ، تھیلسیمیا مائینر ماں باپ تھلیسیمیا میجر بچے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں اس حوالے سے کزن میرج میں شادی سے پہلے ٹیسٹ کروانے پر علمائے کرام کی جانب سے فتوی بھی دئیے جا چکے ہیں، پشاور میں تھیلسیمیا کے شکار بچوں کے لیے گزشتہ پندرہ برس سے فلاحی ادارہ حمزہ فاو¿نڈیشن چلانے والے اعجاز خان کہتے ہیں کہ ان کے سنٹر میں محض تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کو صاف خون کی فراہمی ہی ممکن نہیں بنائی جاتی بلکہ اس مرض سے مکمل آگاہی بھی دی جاتی ہے دوسری جانب معروف اسپتال کے ڈاکٹر وقار حفیظ کہتے ہیں کہ ولسن ڈیزیز کے معاملے میں ایسا نہیں ہے کیونکہ کروڑوں افراد اس بیماری کے نام سے اب تک ناواقف ہیں ، چونکہ اب دنیا بھر میں یہ بیماری بتدریج ظاہرہونے لگی ہے تو اس کے حوالے سے بھی آگاہی پروگرام شروع ہونے چاہیے ان کا کہنا ہے کہ دوران حمل ولسن ڈیزیز کا پتہ بروقت ٹیسٹ کے زریعے لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی اسی صورت ممکن ہوگا جب اس بیماری سے متعلق شعور اجاگر ہوگا اورسب سے دردناک بات تو یہ ہے کہ اس بیماری کے ایک بچے میں ظاہر ہونے کے بعد باقی بہن بھائیوں میں آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ سونیا کے کیس میں اس کے بڑے بھائی کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے سالوں بعد سونیا کا متاثر ہونا۔امیر علی اور ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ لاعلمی میں ہونے والی ان کی اس شادی میں وہ اپنے جگر کے دو ٹکڑوں کو ولسن ڈیزیز نامی بدترین مرض سے لڑتے دیکھ چکے ہیں پرکسی ماں باپ پر اولاد کی ایسی آزمائش نہ آئے اس کے لیے وہ خاندان میں شادی سے قبل ٹیسٹ کی روایت کے خواہاں ہیں۔