حکومت خیبرپختونخوا کے مالی معاملات میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

پشاور:آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے حکومت خیبرپختونخوا کے مالیاتی معاملات میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے، یہ مالی بے ضابطگیاں زراعت، توانائی، صحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں پائی گئی ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت خیبر پختونخوا کے مالی سال 22-2021 کے اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق صرف بجٹ میں مختص فنڈز کے علاوہ اخراجات 17 ارب 86 کروڑ روپے رہے جبکہ 21 ارب 50 کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں دیکھی گئیں۔

محکمہ توانائی اور بجلی میں 7 ارب 70 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آڈٹ رپورٹ میں 84 میگاواٹ کے گورکن میٹلٹن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے آلات کی خریداری کے لیے دیے گئے 2 ارب 80 کروڑ روپے کے ٹھیکے کو ’مشکوک‘ قرار دیا گیا۔

محکمہ زراعت کے کھاتوں میں 18 ارب 45 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں اور ان بے قاعدگیوں میں سب سے بڑا حصہ گومل زم ڈیم منصوبے سے متعلق تھا۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے کھاتوں میں مجموعی طور پر 3 ارب روپے کے اخراجات میں بے ضابطگی کی نشاندہی ہوئی جس میں کووڈ 19 ٹیسٹنگ کے لیے لیب سروسز کی خریداری کے لیے 44 کروڑ 90 لاکھ روپے کا ٹھیکہ دینا بھی شامل تھا۔

اس کے علاوہ آڈیٹرز نے خیبر پختونخوا کے محکمہ ٹرانسپورٹ میں 3 ارب 44 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کا پتا لگایا گیا جس میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ پراجیکٹ کے لیے 2 ارب 90 کروڑ روپے کی ادائیگی بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق کنٹریکٹ ایگریمنٹ 12 مارچ 2018 کو ٹرانس پشاور (دی اربن موبلٹی کمپنی) پشاور اور ایم ایس زیامن گولڈن ڈریگن بس کمپنی لمیٹیڈ چین کے درمیان پشاور بی آر ٹی کے لیے 220 بسوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مینٹیننس سروسز اور ٹریننگ کے لیے معاہدہ ہوا تھا، تاہم آڈٹ سے پتا چلتا ہے کہ 2 ارب 90 کروڑ روپے مالیت کی 92 بسیں جون 2020 کے آخر تک فراہم نہیں کی گئیں۔

آڈیٹرز نے ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے جواب کو گمراہ کن قرار دیا اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے معاملے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کی سفارش کی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 220 بسوں میں سے صرف 128 کو بھی کافی وقت گزرنے کے بعد فراہم کیا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں محکمہ ماحولیات، جنگلات اور جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے مالیاتی کھاتوں میں،41 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں جن میں 4 کروڑ روپے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور تجاوزات سے متعلق تھیں۔

محکمہ ایکسائز، ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول کے اکاؤنٹس کے آڈٹ میں 96 کروڑ 40 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ محکمہ ایکسائز واپڈا (پیسکو) سے 67کروڑ 50 لاکھ روپے کا پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہا، محکمہ ریونیو اینڈ اسٹیٹ میں 3 کروڑ 30 لاکھ روپے کے بے ضابطگیوں کا پتا چلا۔

کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈپارٹمنٹ میں معاہدوں کے مشکوک اور غیر شفاف ٹھیکوں کی فراہمی، زائد اور بلاجواز ادائیگیوں کا پتا چلا جبکہ آڈیٹرز نے مجموعی طور پر ایک ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا پتا لگایا۔

صوبائی محکمہ تعلیم میں بھی 9 کروڑ 20 لاکھ روپے کی مالی بے ضابطگیاں پائی گئیں جہاں فرنیچر، اسٹیشنری اور اسکول بیگز کی خریداری پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔اسی طرح پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ سمیت دیگر صوبائی محکموں کے آڈٹ میں بھی کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔