نان ایشوز کی جگہ ایشوز پر توجہ کی ضرورت 

طب کے متعلق جو بھی جریدہ اٹھا کر دیکھو تو پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں شوگر یعنی ذیابیطس اور بلڈ پریشر کی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ جنک فوڈ کا کثرت سے استعمال ہے‘ہر گھر میں بڑے ہوں کہ بچے  سوفٹ ڈرنکس کا کثرت سے استعمال کررہے ہیں‘ پیدال چلنے پھرنے یعنی واک کرنے کی عادت لوگوں نے بھلا دی ہے۔ بچے موبائل فون کثرت سے استعمال کر رہے ہیں جن سے اگر ایک طرف ان کو چھوٹی سی عمر میں چشمے لگ رہے ہیں تو دوسری طرف وہ موٹاپے کا شکارہو رہے ہیں جس سے پھر شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اس ضمن میں والدین بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہے انہیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ جنک فوڈ کی شکل میں وہ جو کچھ بھی اپنے بچوں کو کھلا پلا رہے ہیں وہ سم قاتل ہے وہ اپنے بچوں کو موبائل فون کی چھوٹی سکرین کے استعمال سے روک نہیں رہے جس سے ان کی بصارت پر منفی اثر پڑ رہاہے۔ یہ شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماراں بعد میں جاکر عارضہ قلب اور گردو ں کے کئی عوارض کا باعث بنتی ہیں افسوس ہے کہ  ان باریکیوں کی طرف  حزب اقتدار ہو کہ حزب اختلاف ان سے تعلق رکھنے والوں میں کسی کا بھی دھیان نہیں ہے۔ وہ اپنا وقت ان ایشوز پر خرچ کرنے کے بجاے نان ایشوز پر ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں تو صحت کے حوالے سے ہی پارٹیوں کی پالیسی ان کی جیت میں اہم کردار اداکرتی ہے‘ اگر کسی پارٹی کے پاس صحت عامہ کی اچھی پالیسی ہے تو عوام ان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیتے ہیں دوسری صورت میں اگر کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس صحت عامہ کے حوالے سے کوئی خاص پروگرام نہیں تو عوام ایسی پارٹیوں کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اگر اس سلسلے میں عوامی شعور اجاگر ہو اور وہ صحت عامہ کے پروگرام کو دیکھ کر ہی کسی بھی سیاسی جماعت کی تائید یا تائید سے انکار کریں تو اس سے سیاسی جماعتیں اس طرف توجہ دینے پر مجبور ہوں گی‘ اس جملہ معترضہ کے بعد کچھ اور امور کا ذکر ہوجائے تو مناسب ہوگا۔سپریم کورٹ کے اس حکم سے کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ خصوصی افراد کو ملازمت دینا صدقہ یا خیرات نہیں بلکہ ان کا حق ہے اور یہ کہ ان کیلئے مختص کوٹہ پر فوری عملدرآمد کیا جائے‘بھارت میں مودی سرکار کی اسلام دشمنی کے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوہی خبر آ رہی ہے‘تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینا جرم بن گیا ہے‘ریاست اتراکھنڈ میں انتظامیہ نے 7 مساجد پر پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ اس لئے کیاہے کہ وہاں لاؤڈ سپیکر پر اذان دی گئی تھی۔دنیا بھر کے میڈیا میں بیرون ملک تعینات ہمارے سفارت کاروں کو اس واقعے کو اُجاگر کرنیکی ضرورت ہے۔ نیز اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بھی اس واقعے کا تواتر سے ذکر ضروری ہے۔تاکہ بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا جا سکے جس نے دنیا کی بڑی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا بھارت میں جینا دو بھر کررکھا ہے۔