الیکٹرک موٹرسائیکل کا فروغ

 حکومت نے ’ای بائیکس کی فروخت کو فروغ دینے کے لئے فنانسنگ پیکج کا اعلان کیا ہے۔ یہ ماحول دوست بائیکس ماحولیاتی مقاصد کے حصول‘ صنعتی ترقی اور پیٹرول کی درآمدات اور کھپت میں کمی لانے میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ای بائیک مینوفیکچرنگ تیزی سے پھیلتا ہوا کاروبار ہے اور پاکستانی مارکیٹ میں اِس کے پھلنے پھولنے کے امکانات موجود ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 60 لاکھ موٹر سائیکلیں زیراستعمال ہیں اور ہر سال تقریبا 20 لاکھ نئی موٹر سائیکلیں فروخت ہو رہی ہیں۔ ’اِی بائیک‘ روایتی موٹر سائیکل کے مقابلے میں نسبتا مہنگا لیکن چلانے میں نسبتاً سستا ہے کیونکہ اِس کی پیشگی خریداری کی لاگت روایتی موٹر سائیکلوں کے مقابلے میں تیس سے پچاس ہزار روپے زیادہ ہے تاہم روزمرہ ایندھن کی لاگت کم ہونے کی وجہ سے ’ای بائیک‘ کفایت شعار سمجھے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں کچھ شرح سود پر سبسڈی کے ساتھ ایک سستی فنانسنگ سکیم فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بھی نیک شگون ہے کہ سیاسی تبدیلیوں سے قطع نظر اس سلسلے میں پالیسی کا تسلسل جاری ہے۔ افریقہ‘ جنوبی امریکہ اور ایشیا بحرالکاہل کے ترقی پذیر اور غریب ممالک ’ای بائیکس‘ کی بڑی مارکیٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’الیکٹرانک وہیکلز (EV)‘ گاڑیوں کی مارکیٹ موٹرسائیکلوں کے مقابلے چھوٹی ہے۔ چھوٹی موٹرگاڑیوں کو حالیہ چند برس میں پذیرائی ملی ہے کیونکہ اِن کی قیمت اور حجم جیسے عوامل غالب ہوتے ہیں۔ زرعی ٹریکٹروں کے شعبے میں بھی کافی کامیابیاں دیکھی گئی ہیں۔ قیمت اور حجم کے عوامل ٹریکٹروں کے معاملے میں بھی حاوی نظر آتے ہیں۔ سستی کریڈٹ فنانسنگ نے ٹریکٹر مارکیٹ اور اس کی مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا ہے۔ ڈبلیو ٹی او‘ پاکستان حکومت اور آئی ایم ایف ورلڈ بینک کا ماننا ہے کہ گزشتہ دو تین دہائیوں کی درآمدات کو فروغ دینے والی پالیسیوں اور سستے چینی سامان کے داخلے نے نہ صرف مقامی مینوفیکچرنگ کو سست کیا ہے بلکہ صنعتی بنیاد کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر توجہ مرکوز ہے اور پاکستان 80ارب ڈالر کی درآمدات جبکہ 36 ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے تو ایسی صورت میں مقامی وسائل کو بروئے کار لانا پہلی ترجیح ہے۔ ’ای وی گاڑیاں‘ کو توانائی کے ذرائع کی لوکلائزیشن کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہئے۔ فاسٹ ٹریک سولر پی وی پروگرام اِس سلسلے میں کچھ اہداف حاصل کرنے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سولر پی وی میں پیش رفت گزشتہ چند سالوں میں سست روی کا شکار رہی ہے‘ جس کی ایک وجہ حد سے زیادہ گنجائش کا مسئلہ ہے‘ جو جیواشم ایندھن کے شعبے میں ایک ہزار سے تیرہ سو میگاواٹ صلاحیت کے پاور پلانٹس کی فراہمی کی پیچیدہ نوعیت کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں ایک عام مسئلہ ہے۔ ای بائیکس کا خاص طور پر پرکشش پہلو یہ ہے کہ اِن کے ساتھ چھت پر شمسی توانائی نصب کی جا سکتی ہے جو ای بائیک صارفین کے لئے بہت زیادہ کفایتی ہوگا۔ انورٹر کے بغیر ایک یا دو سولر پینل ’ڈی سی سسٹم‘ کے لئے اچھا پیکج ہوسکتا ہے۔ آف پیک مدت میں ای بائیکرز کے لئے سبسڈی والے بجلی کے ٹیرف پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ ’ای ویز‘ کے لئے ایک اور مارکیٹ ٹرک اور بسیں ہیں۔ یہ گاڑیاں زیادہ مقدار میں ڈیزل استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے مال و اجناس کی نقل و حمل پر زیادہ لاگت آتی ہے۔ ای وی کی فنانسنگ کے لئے بین الاقوامی سبسڈائزڈ فنانسنگ مل سکتی ہے۔ ڈیزل بسوں کی الیکٹرانک تبدیلی ایک قابل عمل نقطہ نظر ہے کیونکہ ڈیزل انجنوں کو ہر پانچ سال میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر اگر ڈیزل بسوں کو ای وی سسٹم میں تبدیل کر دیا جائے تو یہ کفایت شعار اور ماحول دوست اقدام ہوگا ای بائیک مارکیٹ میں حکومت کی سرمایہ کاری اور مقامی وسائل پر انحصار کا یہ نادر موقع ہے جسے مارکیٹ کی تقسیم میں ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت مراعاتی پیکج کے تحت سوفیصد ای بائیکس کی پیداوار کے لئے دو یا تین لائسنسوں کی نیلامی کی فزیبلٹی تلاش کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لئے بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستان  میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جانی چاہئے۔ ای بائیکس کے تین بڑے حصے ہوتے ہیں۔ باڈی کے علاوہ بیٹریاں‘ موٹر اور الیکٹرانکس‘ پہیے اور سٹیئرنگ وغیرہ۔ یہ تینوں چیزیں مقامی طور پر تیار کر کے الگ الگ صنعتیں قائم کی جا سکتی ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد افتخار علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)