توانائی کے بحران کا مستقل حل درکار

روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ طے پاگیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ ایک آدھ مہینے کے بعد تیل کی سپلائی شروع ہو جائے گی یہ بھی غنیمت ہوگا اگر اگلے سال کے موسم سرما میں وطن عزیز کے باسیوں کو اس توانائی کے بحران کا سامنا پھر نہ کرنا پڑے جو انہیں امسال کرنا پڑا ہے۔ بہرحال ملک میں بجلی اور گیس کے بحرانوں کا مستقل حل نکالنے کیلئے حکومت کو ایک جامع حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ کاسمیٹک cosmetic اقدامات ان مسائل کو وقتی طور قالین کے نیچے دکھیل تو سکتے ہیں پر ان کا مستقل حل فراہم نہیں کرسکتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی ایک خاص دور کے بعد ملک میں ڈیموں کی تعمیر کی طرف رتی بھر بھی توجہ نہ دی گئی جس کی وجہ سے یہ ملک آج رات کو اکثر اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ اب ہمیں کل کی فکر کرنا ضروری ہے جوں جوں ملک کی آبادی بڑھے گی اس کی بجلی اور گیس کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوگا انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے a stich in time saves nine  جس کا ترجمہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ وقت کی ایک سلائی نو کی بچت کرتی ہے۔ اگر وقت پر ڈیم بنا دئیے گئے ہوتے تو آج ہمیں دوسرے ملکوں سے اس قسم کے سمجھوتے نہ کرنے پڑتے جس کا ذکر ہم نے اوپر کی تحریر میں کیا ہے اور اس بات زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ فلاں فلاں ممالک نے ہمیں اتنا اتنا قرض دے دیا ہے جس سے ہماری معیشت سدھر جائے گی۔ اس قسم کی امداد بالکل ایسی بات ہے کہ جیسے آپ کسی کینسر کے مریض کا درد کم کرنے کے لئے اس کو پین کلر گولی دے دیں تاکہ وقتی طور پر اس کے درد میں کچھ کمی ہو جائے انگریزی زبان کا ہی ایک محاورہ ہے there is no such thing as a free lunch کوئی کسی کو مفت میں قرضے نہیں دیتا یا تو مقروض ملک کو قرضوں کو سود کے ساتھ واپس کرنا پڑتا ہے اور یا پھر مالی امداد دینے والے ملک کی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔اب ہمیں مکمل طور پر خود کفالت کی طرف جانا پڑیگا تاکہ یہ روز روز کے مسائل سے جان چھوٹ جائے۔ اگر ہم توانائی اور خوراک کے معاملے خود کفیل ہوئے تو یہ دو ایسے شعبے ہیں جن کی درآمدات پرہمارا قیمتی زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی زرعی اجناس کی ددآمد پر زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں جبکہ قدرت نے ہمیں زراعت کے حوالے سے خصوصی طور پر فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ ہمارے پاس زری خیز زمین اور ہر طرح کے موسم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی فراوانی بھی ہے تاہم ہم نے نہ تو اس زرخیز زمین سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور نہ ہی پانی کے حوالے سے ہم نے ٹھوس منصوبہ بندی کی ہے۔ ہمارے پاس اگر پانی ذخیرہ کرنے کا مناسب انتظام ہوتاتو آج ہم نہ صرف بجلی پیدا کرنے کے معاملے دوسرے ممالک سے مدد نہ طلب کرتے بلکہ دوسرے ممالک کی بھی ہم مدد کرنے کے قابل ہوتے۔یہ معاملہ خوراک کا بھی ہے۔کسی وقت ہم گندم برآمد کرنے والے ممالک میں سے تھے اب ہم گندم دیگر ممالک سے درآمد کرنے پرمجبور ہیں جو کہ ہماری کمزوری ہے۔اگر ہم اس طرف خاطر خواہ توجہ دیتے تو آج ہمیں نہ خوراک کی قلت کا سامنا ہوتا اور نہ ہی توانائی بحران کا۔