مسائل کی بھرمار

سردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی  پورا ملک کھانسی زکام نزلہ کا شکار نظر آ رہا ہے،خاص طور پربچوں اور بوڑھوں کو اس حوالے سے سخت مشکل کاسامناہے اور ماہرین طب کی طرف سے خصوصی احتیاط کا مشورہ دیا جارہا ہے۔اس ضمن میں دیکھا جائے تو فضائی آلودگی بڑا سبب ہے اور خطرے کی علامت تو یہ ہے کہ فضائی آلودگی میں کمی کی بجائے اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ گزشتہ روز ملک کے کئی حصوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔تاہم کسی جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد ذکر کریں گے تازہ ترین اہم عالمی اور قومی معاملات کا۔ اس وقت ملک میں سیاسی گرما گرمی کا ماحول ہے اور جبکہ دوسری طرف مہنگائی میں روز افزوں مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ایسے میں کفایت شعاری وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم اس مشکل دور سے کامیابی کے ساتھ نکل سکتے ہیں۔  اس پرہمیں درج ذیل قصہ یاد آ یا۔سید فریداللہ شاہ ایک سینئر بیوروکریٹ گزرے ہیں انہوں نے ہمیں ایک مرتبہ بتایا کہ جب قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے این ڈبلیو ایف پی میں پہلی وزارت بنی تو اس میں پانچ وزراء تھے صوبے کی مالی حالت مخدوش تھی کابینہ کے وزرا کے استعمال کیلے سرکاری گاڑیوں کی تعداد صرف پانچ تھی۔اب ان پانچ دستیاب گاڑیوں میں سے ایک گاڑی تو وزیر اعلیٰ کے استعمال کیلئے مختص کر دی گئی اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کابینہ کے پانچ وزرا ء کی گاڑیوں کا مسئلہ کیسے حل ہو کیونکہ باقی ماندہ وزرا ء کی تعداد پانچ تھی اور گاڑیاں چار انہوں نے آپس میں یہ  فیصلہ کیا کہ خیرہے کوئی بات نہیں جب تک صوبے کی مالی حالت درست نہیں ہو جاتی پانچویں گاڑی نہ خریدی جائے اور سر دست وزراء ایک گاڑی کا  اپنے دوروں کے دوران باری باری استعمال کریں گے۔ یہ تھا  اس وقت سادگی اور قناعت کا عالم۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک سرکاری گاڑیوں کے استعمال اور ان کی خریداری پر کثیر رقم کا جو عالم ہم نے دیکھا  اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب ہی اس بارے میں بخوبی جانتے ہیں۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ تین چار سال بعد جب بھی اس ملک میں مرکز یا صوبوں میں نئی حکومت بر سر اقتدار آئی تو چنگی بھلی پہلے سے موجود سرکاری گاڑیوں کو ترک کر کے ان کی جگہ وزراء کے واسطے نئی گاڑیاں خرید لی گئیں  حالانکہ پہلے سے موجود گاڑیوں کو مزید تین چار برس استعمال کیا جاسکتا تھا۔ صرف اس ایک بات سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری سیاسی اقدار کی 1947 میں کیا پوزیشن تھی اور اس کے بعد وہ کتنی رو بہ زوال ہوئی۔اب عالمی منظرنامے کا تذکرہ ہواجائے جہاں ایک طرف اگر چین مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کوششیں کر رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آ باد کاروں کو مسلح کر رہا ہے۔مشرقی وسطیٰ میں حالات کشیدگی کی طرف جار ہے ہیں اور یہاں بھی جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں بد امنی کا ذمے دار اسرائیل ہے جس کی سرپرستی امریکہ کر رہا ہے۔تاہم اسرائیل جہاں فلسطینیوں کے خلاف کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں وہاں اگلے روز اصفہان میں فوجی پلانٹ پر  ڈرون حملوں کی جو کوشش کی گئی ہے اس کے پیچھے بھی لامحالہ اسرائیل کا ہاتھ ہے وہ  ایران کی عسکری قوت کو کچلنے پر تلا ہوا ہے  تاکہ مشرق وسطیٰ میں اس کا مقابلہ کرنے والا کوئی ملک نہ ہو۔دوسری طرف یورپ ایک بار پھر اسلامو فوبیا کا شکار ہوتا نظر آرہاہے جہاں قرآن پاک کی بعض ممالک میں ایک منظم سازش کے تحت بے ادبی اور بے حرمتی کی جا رہی ہے۔