پشاور دھماکہ کے بعد

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد میں منگل کے روز بھی اضافہ بتایا گیا‘ تادم تحریر شہید ہونے والوں کی تعداد93 بتائی جا رہی ہے جس میں اضافے کا خدشہ بھی ہے دھماکہ کے دوسرے روز بھی پشاور سمیت صوبے بھر میں فضاء سوگوار رہی‘ وزیراعظم شہباز شریف نے اس افسوسناک واقعہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ خود کش حملہ آور اندر داخل کیسے ہوا‘ وزیراعظم نے واقعہ کی فوری تحقیقات اور اصل محرکات سامنے لانے کا حکم بھی دیا‘ اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ پشاور کی پولیس لائنز کا محل وقوع انتہائی اہمیت کے حامل زون میں ہے سنٹرل جیل پشاوراور پولیس اینڈ سروسز ہسپتال کے وسط میں لائنز کا کمپاؤنڈ ہے جبکہ اس کے بالمقابل سول سیکرٹریٹ اور ملحقہ دفاتر کی عمارتیں ہیں پورے علاقے کے داخلی راستوں پر سکیورٹی کے انتظامات ہیں پولیس لائنز میں داخلے کا ایک ہی مرکزی راستہ ہے جس پر اپنی سکیورٹی بھی ہے صوبے میں کچھ دنوں سے پولیس کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کے بعد سکیورٹی کا ہائی الرٹ ہونا بھی یقینی ہے ایسے میں پشاور کے چیف کیپٹل پولیس آفیسراعجاز خان ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کیساتھ گزشتہ روز بات چیت میں اس افسوسناک واقعہ کو سیکوٹی کی ناکامی قرار دے رہے ہیں اس سانحہ سے متعلق حقائق تو انکوائری رپورٹ میں سامنے آئیں گے ضروری ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں حفاظتی اقدامات پر نظر ثانی کی جائے ان انتظامات کو زیادہ سے زیادہ فول پروف اور عوام دوست بنانے کے لئے ناگزیر ہے کہ ان میں عوامی نمائندوں سے تعاون لیا جائے مد نظر رکھا جائے کہ عوامی نمائندوں کی رسائی گلی محلے کی سطح پر ہوتی ہے‘ عوامی نمائندوں اور تاجر و دیگر تنظیموں سے تعاون حاصل کرنے کیلئے فاصلے کم کرنے کیساتھ اعتماد بھی ناگزیر ہے اس سب کیلئے حکمت عملی اسی صورت زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو سکتی ہے جب اس کی تیاری میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت شامل ہو۔

خون کے عطیات

مہیا اعدادوشمار کے مطابق پولیس لائنز دھماکہ کے زخموں کیلئے صرف دو گھنٹے میں دو ہزار بیگ خون عطیہ کیا گیا‘ خون کا یہ عطیہ ریکارڈ کا حصہ ہے‘ خون کے عطیات اتنے بڑھے کہ ہسپتال انتظامیہ کو اپیل کرنا پڑی کہ مزید لوگ عطیہ دینے کیلئے نہ آئیں‘ خو ن کا عطیہ ایمر جنسی کے علاوہ بھی امراض خون میں مبتلا مریضوں خصوصاً بچوں کیلئے ہر وقت چاہئے ہوتا ہے امراض خون کے علاج کیلئے ہمارے پاس انتظامات کو کسی صورت کافی قرار نہیں دیا جا سکتا اس ضمن میں فلاحی ادارے زیادہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ امراض خون کے علاج کے لئے ہسپتالوں میں یونٹس کو فعال بنانے کے ساتھ بلڈ بینک میں محفوظ خون کی فراہمی کا انتظام بہتر بنایا جائے ساتھ ہی ڈونرز کا پورا ریکارڈ بھی رکھا جائے‘ ایمر جنسی کی صورت میں عطیات کے پہنچنے تک خون کی فراہمی ہسپتالوں سے پوری رکھنے کا بندوبست بھی بہتر بنایا جائے‘اس سب کے ساتھ رضا کار ادارروں میں خون محفوظ رکھنے کے انتظامات کا جائزہ بھی لیا جاتا رہے اس میں اچھے اداروں کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔