پشاور میں جب جب  دہشت گردی ہوتی ہے ،مائیں نوحے پڑھتی ہیں !

 فاطمہ نازش 

(زمہ شہزادہ زلمی ،دا تور سر او اوچت قد ) ہائے میرے جوان
 شہزادے کالے بالوں اور دراز قد والے ) تیرا قصور کیا تھا ؟ہائے یہ کون سی قیامت آگئی ہم غریبوں پر ، ہائے یہ کیسی گھڑی ہے ظلم کی میں تجھے شناخت نہیں کر پارہی ، تو تو وردی میں جاتا تھا یہ تیرا کفن کیسے بن گئی ، دھاڑیں مارتی یہ ضعیف خاتون  پشاور پولیس لائن خودکش دھماکے میں ایک شہید ایک پولیس اہلکار کی ماں  تھیں ، جنہیں ٹراما روم سے ایک خاتون اور ایک بزرگ سہارا دے کر گیٹ سے باہر لے جارہے تھے لیکن ان کی آہ و بکا گویا عرش ہلارہی تھی ،گزشتہ روز پشاور پولیس لائن حملے میں اب تک 100 سے زائد شہادتوں کی تصدیق ہوئی ہے، 57زخمی ابھی بھی لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زیر علاج ہیں ، ریسکیو ذرائع کے تحت ملبے تلے سے مزید جسد خاکی نکالے جانے کا امکان ہے جبکہ اسپتال میں موجود زخمیوں میں بھی ترجمان محمد عاصم کے مطابق آٹھ تا دس کی حالت تشویشناک بتائی جا  رہی ہے ، جن میں بڑی تعداد پولیس اہلکاروں کی ہی ہے ،شہادتوں کے اس نمبر کو دیکھیں تو کل سے اب تک 100مائیں اپنے جوانوں پر بین کر رہی ہوں گی ،لیکن پشاور میں بے گناہوں کے خون کی یہ ہولی دہشت گردی کی کاروائی میں پہلی بار نہیں کھیلی گئی ، کل اس ضعیف ماں کے غم کو دیکھ کر دہشت گردی میں اپنے لخت جگر کھودینے والی کتنی ہی مائیں مجھے یاد آگئیں ،سال دوہزار بائیس مارچ کے اوائل میں کوچہ رسالدار مسجد دھماکے میں 70کے قریب شہدا میں سترہ سالہ حسنین کی والدہ عرفانہ کی آواز بھی کانوں میں آئی جو  کال پہ کہہ رہی تھیں کہ فاطمہ! میں نجانے کیوں اس دن اسے نماز کے لیےجلد ازجلد بھیجنا چاہ رہی تھی اپنے بیٹے کو جمعہ کی نماز کے لئے میں نے اپنے ہاتھون سے تیار کیا ، اس کے پاؤں میں جو نئی سفید جرابیں پہنائی تھیں جب وہ لوٹا تو وہ اسی کے خون سے سرخ تھیں ، وہ اس دن دو بار فیس واش سے منہ دھو کر گیا میں ہنسی کہ نہانے سے پہلے اور نہانے کے بعد فیس واش کرنے کا کوئی نیا رواج ہے کیا تو جوابا ہنس کے کہنے لگا کہ دیکھیں تو جمعہ کی نماز کے لئے جارہا ہوں کتنا نور ہے میرے چہرے پر ، اور یہ کہتے ہوئے وہ دھاڑیں مار کر رونے لگیں کہ میں کیا جانتی تھی کہ یہ نور اس کے چہرے پر شہادت سے پندرہ منٹ پہلے کا ہے , مجھے دوہزار چودہ سانحہ اے پی ایس کی مائیں بھی کل بڑی شدت سے یاد آئیں مجھے شہید اسفند کی ماں یاد آئیں جو کہتی ہیں کہ سولہ سال کے اسفند کا قد والد کے قد سے بڑھ گیا تھا وہ اس دن چھٹی کے موڈ میں تھا لیکن انہوں نے اسے بہلا کے سکول بھیج دیا ،اکلوتے بیٹے حمزہ کاکڑ کی والدہ کا دکھ بھی یاد آیا جو بیٹے کی شہادت سے دو روز قبل اس کے لائے پرندوں کو زندگی کا ساتھی بنا بیٹھی ہیں ، درانی خاندان کے دو لخت جگر بیک وقت اے پی ایس سانحہ میں کھو دینے والی ماں کے آنسو آٹھ سال بعد بھی خشک ہوکر نہیں دے رہیں ،مجھے اے پی ایس پی کی استانی سحر افشاں کی ماں کے نوحے ان کی پتھرائی آنکھوں میں چھلکتے دکھائی دئیے تھے اور اس ماں کی آنکھیں پتھرا ہی جاتی ہیں جو سرخ جوڑے میں رخصت کرنے کے بجائے  زندہ جلائی جانے والی بیٹی کو   کفن میں لپیٹ چکی ہوں ' ہائے میں جولائی دوہزار بائیس میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اس پولیس اہلکار کی ماں کی فریاد بھی کیسے بھولوں جس کی دو ماہ کی حاملہ بہو ایک ہفتہ قبل ہی ماں بنی ہے ، اور دوہزار آٹھ مینا بازار دھماکے میں شہید ہونے والی سبز آنکھوں والی سرکاری ٹیچر کلثوم کی بوڑھی ماں جو اپنی ہی بیٹی کی موت کا زمہ دار خود کو ٹھہرا رہی تھیں کہ کیوں انہوں نےاسے بہن کی بارات سے ایک روز قبل مایوں کا ضروری سامان لینے بازاربھیجا ,بطور صحافی گزشتہ آٹھ سال سے پشاور میں ایسے واقعات اور سانحات کی رپورٹنگ کرنا اب میرے لئے شائد معمول کی بات ہوچکی ہے اور جب جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو کہیں نہ کہیں اپنے پیاروں کی کٹی پھٹی ناقابل شناخت لاشوں پر بین کرنے والے اس وقت کو کہ جب انہوں نے انہیں کسی کام سے بھیجا ہوتا ہے کو سوچ کر خودکو مورد الزام ٹھہراتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر اس وقت ویسا نہ کرتے تو ایسا نہ ہوتے شاید اس لیے کہ درحقیقت انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں ، تو بس خود کو ہی الزام دےکر ناکردہ قصور کو گلے لگا لیتے ہیں ، لیکن پشاور میں گزشتہ دو پندرہ برس سے جاری دہشت گردی کی کاروائیوں میں اپنے پیاروں ، اپنے شہزادوں اپنے لخت جگر منوں مٹی تلے اتار دینے والی مائیں آنکھوں میں آنسو لئے یہ سوال ضرور پوچھتی ہیں کہ کیا اس شہر کی مائیں بیٹے اس لئے جنتی ہیں کہ جوان ہونے پر وہ ایسی بے دردی سے کچل دینے جائیں کیا انہیں کبھی انصاف نہیں ملے گا یا پھر  ان کا مقدر یہ نوحے بنا دئیے گئے ہیں ۔اور میں یہ سوچ رہی ہوں کہ میری یاداشت میں  ایک اور ماں کی چیخ و پکار کا اضافہ ہوگیا اور نجانے کتنے عرصے تک دل و دماغ پر یہ اب  یہ صدا گونجتی رہے گی کہ زمہ شہزادہ زلمی --لیکن اس صدا کا جواب ماں کہہ کر دینے والا کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا .