کم عمر گھریلو ملازموں پر تشدد، قانون پر عمل درآمد سوالیہ نشان

فاطمہ نازش :   
جب مار پڑتی ہے تو بے بے بہت یاد آتی ہیں ، بارہ سالہ فاطمہ جو گھریلو بچہ مشقت میں اپنا بچپن کھو رہی ہے ! پشاور کے پوش علاقے جن کے ہر چھٹے گھر میں فاطمہ کی ہی کہانی جیسی ہی کہانیاں پروان چڑھ رہی ہیں "
 دسمبر کی ٹھٹھرتی رات میں انیکسی کے کمرے میں زرد بلب کی جلتی بجھتی روشنی بارہ سالہ فاطمہ کے چہرے پر پڑ رہی ہے جسے وہ دونوں بازوؤں میں چھپائے دبی آواز سے سسکیاں لے رہی ہے ، پاس بیٹھی نگینہ خاتون جو اسی بنگلہ میں ملازمہ ہیں فاطمہ کو حسب معمول تسلی دینے کی کوشش کررہی ہیں-فاطمہ کو آٹھ ماہ قبل پشاورکے اس بنگلے میں ایک سال کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے بھیجا گیا تھا ابتدائی طور پر یہ معاہدہ چھ ماہ کا تھا جس کے اختتام پر فاطمہ گھر جانے کے خیال سے ہی خوش تھی کہ معاہدہ کی مدت میں مزید چھ ماہ توسیع کردی گئی –
 خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مشقت کے حوالے سے قانون تو بنا دیا گیا ہے) تاہم ,اسپارک آرگنائزیشن کے سروے 2004'2005 کے مطابق (یہاں یہ حوالہ اس لئے دیا جارہا ہے کہ اس کے بعد کوئی مربوط سروے کیا ہی نہیں گیا ) پشاور کے پوش علاقوں کے ہر چھٹے گھر میں گھریلو بچہ مزدور موجود ہے ، ان محنت کش بچوں میں نوےفیصد کو انہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ فاطمہ کو ، مالکن کے بچے کی دیکھ بھال کے علاؤہ بنگلے کی تمام اشیا کی جھاڑ پونچھ، تازہ پانی بھرنے اورابال کر بوتلوں میں ڈالنے کی زمہ داری بھی اسی کی سر ہے ،پتیلے سے بوتل میں پانی منتقل کرنے کے دوران ایک بار فاطمہ اپنا ہاتھ بھی بری طرح جلا بیٹھی جس کے بعد اسے مزید برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا کہ مالکوں کے لیے مصیبت ڈھونڈ لی ، فاطمہ روتے ہوئے بتا رہی تھی کہ کبھی کبھی بچے کی دیکھ بھال میں بھول چوک ہوجائے تو بہت مار پڑتی ہے اور جب جب مار پڑتی ہے تو بے بے (ماں) بہت یاد آتی ہے
گھریلو بچہ مشقت کی تعریف!
گھریلو بچہ مشقت کئ تعریف کیا ہے اور اس کے ہونے کی وجوہات کیا ہیں ؟
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے متعین کردہ قواعد کے مطابق بچوں سے مزدوری اور کام کروانے کے درمیان فرق رکھنا انتہائی اہم ہے ،ایک ایسا کام جسے کرنے سے بچے کی جسمانی نشوونما ، تعلیم اورذہنی صحت متاثر نہیں ہورہی وہ چائلڈ لیبر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا مثلاً اگر ایک بچہ سکول سے چھٹی ہونے پر یا تعطیلات کے دوران کام کرتا ہے یا اپنے خاندانی کاروبار میں ہاتھ بٹاتا ہے تو یہ بچہ مشقت کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا بلکہ ایسا کام بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور ہنر مند بنانے کے محرکات میں شامل ہوگا جو انہیں مستقبل میں خود انحصار شہری بننے میں معاونت دے گا انٹرنیشنل لیبر ارگنائزیشن کے مطابق بچہ مشقت وہ عمل ہے جس سے بچے اپنے بچپن سمیت باعزت طرز زندگی سے محروم ہوجائیں جو ان کی جسمانی اخلاقی اور ذہنی صحت کو متاثر کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے لئے تعلیم کے دروازے بند ہوجائیں چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے آئی ایل او کے مطابق بچے کی عمر ، اس سے لئے جانے والے کام کی نوعیت اور حالات اور اوقات کار کے علاوہ اس ملک کی ترقیاتی صورتحال کو بھی مدنظر رکھا جائے گا 
 بچوں کو گھروں سے دور مشقت کے لئے بھیجے جانے کا سب سے بڑا محرک غربت!
گھریلو بچہ مشقت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ٹارگٹ 8.7 کی رو سے سال 2025ء تک گھریلو بچہ مشقت کو اس کی تمام تر شکلوں میں ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے, لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں غربت کی لکیر تلے زندگی گزارنے والوں کی معاشی گاڑی چلانے کا اہم ذریعہ ان کے بچے ہی ہیں جنہیں گھروں سے دور خصوصا شہری علاقوں میں گھریلو بچہ مزدوری کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک گھریلو بچہ مزدور کے والد نے  شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے نو بچے ہیں تین ابھی دو تا پانچ سال کی عمر کے ہیں جب کہ دیگر چھ کی عمریں سات تا تیرہ برس ہیں وہ بتا رہے تھے کہ ان کے چھ کے چھ بچے مزدوری کرتے ہیں کچھ کو بازار میں کسی استاد کے پاس اور کچھ کو شہر سے باہر بنگلوں میں نوکری کے لئے بھیج رکھا ہے چھوٹے بچے دن کا سو روپے لاتے ہیں لیکن جنہیں گھریلو ملازمت کے لئے بھیجا ہے وہ چار تا چھ ہزار مہینہ کما لیتے ہیں یوں ان کی گزر بسر مہنگائی کے اس دور میں کھینچ تان کر ہو ہی رہی ہے ، تعلیم نہ دلوانے کے سوال پر ان کا موقف تھا کہ ان کے معاشی حالات اس بات کئ اجازت ہی نہیں دیتے اور ویسے بھی ان کے بچوں نے کونسا اعلی تعلیم تک پہنچ جانا ہے دو چار جماعتوں کے بعد تو ان کے علاقوں کے بچے ویسے بھی خود ہی سکول سے بھاگ جاتے ہیں تو بہتر ہے کہ بچپن سے ہی کام کاج کرکے پیسہ کمانے کے عادی ہوں۔
 پاکستان بھر میں چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے یہی رحجان مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ بچے ماہانہ تنخواہ پر بھیجے جانے کے بجائے سال یا چھ ماہ کے معاہدے کے تحت بھیجے جاتے ہیں ،ان بچوں کی صحیح تعداد کے تعین کے لئے خیبرپختونخوا محکمہ محنت و افرادی قوت کی جانب سے سروے جاری ہے جس میں یہ پتہ لگانے کی بھی کوشیش کی جارہی ہے کہ درحقیقت کتنے بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں اور ایک ہی گھر سے کتنے بچوں کو کام پر لگایا جارہا ہے ، بچوں کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے والی سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈ گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان کی تحقیق کے مطابق اگر ایک گھر سے تین سے چار بچوں کو بھی اسی غرض سے بھیجا جائے تو والدین کو یکمشت اچھی خاصی رقم ہاتھ آجاتی ہے دوسری جانب ان بچوں کو گھروں پر بطور ملازم رکھنے والوں کو بھی کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی جنہیں بڑی عمر کے ملازم کے مقابلے میں بچے کم اجرت پر تو ملتے ہی ہیں ساتھ ہی نہ تو انہیں ہفتہ وار چھٹی دینی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی حکم عدولی کا خدشہ رہتا ہے ‘ ہم اپنی ایک کزن کی ساس سے سنا کرتے تھے کہ “بھئی گھر میں ملازم رکھنا ہے تو بچوں کو رکھو نہ تنخواہ زیادہ دینی پڑتی ہے نہ ان کے حیلے بہانے برداشت کرنے پڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دو مہینے میں ان کے گھر والے خود ہی آکر مل جاتے ہیں ، چھٹی کی نوبت بھی سال چھ ماہ میں ایک ادھ بار ہی آتی ہے “ اور یہ رائے صرف انہی خاتون کی نہیں بچوں کو گھروں پر ملازم رکھنے والے کم و بیش سب ہی مالکان ایسا ہی سوچتے ہیں ، ان بچوں کو کام پر لگانے والے والدین سے بات کی جائے تو ان کا رونا یہی ہوتا ہے کہ غربت ہے ، تعلیم اور روزگار کے دیگر مواقع نہ ہونے کے سبب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ بچوں کو کام پر لگوا کر اپنی زندگی کا پہیہ چلائیں ۔
خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مشقت کے حوالے سے قوانین !
خیبرپختونخوا کی حکومت نے 14سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے اورجبری مشقت پر خیبرپختونخوا ہوم بیسڈ ورکرز ویلفیئر پروٹیکشن بل 2021کے تحت پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن پاکستان میں حالیہ معاشی دگر گوں صورتحال غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری اور ناخواندگی کو دیکھتے ہو ہے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس قانون پر عملدرآمد آسان نہیں ہے ،اس قانون کے تحت بچوں سے جبری مشقت پر پابندی ہوگی تو وہیں گھروں میں کام کاج کا آغاز باقاعدہ معاہدے کے زریعے ہوگا تنخواہ کی ادائیگی کے طریقہ کار سمیت ملازمت کے اوقات کار بھی وضع کیے جانے ضروری ہیں قانون کے مطابق ہفتہ وار کام کا دورانیہ 60گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے ، اگر ملازم کو نوکری سے برطرف کرنا ہو تو تحریری طور پر آگاہ کرنے کے علاوہ ایک ماہ کی تنخواہ بھی ادا کرنی ہوگی ،2010میں بھی اٹھارویں آئینی ترمیم منظوری کے بعد بھی خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں اس قسم کی قانون سازی ہوئی جس پر عملدرآمد کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے
گھریلو بچہ مشقت اور سماجی کارکنوں کا ردعمل!
پشاور میں بچوں کے حقوق خصوصاً چائلڈ لیبر کے سرگرم کارکن عمران ٹکر کے مطابق بیورو آف اسٹیٹکس گورنمنٹ آف پاکستان 1996 کے بعد ملکی سطح پر ایسا کوئی جامع سروے نہیں کیا گیا جس میں گھروں میں موجود ملازم بچوں کی تعداد کے بارے میں پتہ لگایا جاسکے ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ فنڈز کی عدم دستیابی اور معاملے کی سنگینی کے حوالے سے غیر سنجیدگی ہے اگر اس حساس مسلے کی جانچ کے لئے بجٹ مختص کیا جائے تو چائلڈ لیبر کی نشاندہی میں آسانی ہوسکے گی ، دوسرا یہ کہ صلاحیت کے علاؤہ شعور اور آگاہی کا فقدان ہے ایک اور بڑی رکاوٹ اداروں کا اس مسلے کی روک تھام کے لئےمل کر کام نہ کرنا ہے عمران ٹکر نے بتایا کہ اگر متعلقہ محکمے اگر اتفاق رائے سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں حقیقی معنوں میں بچوں سے مشقت لیے جانے کا سدباب ہوجاہے گا 
حکومتی موقف !
خیبر پختونخواکے ڈائریکٹر برائے محنت و افرادی قوت عرفان خان سےجب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے ان کے پاس کوئی مربوط اعدادوشمار نہیں ہیں ،حکومت کی جانب سے اس مسلے کے حل کے لئے سروےجاری ہے جس کے مارچ تک مکمل ہونے کے امکانات ہیں اس میں یہ بھی دیکھا جائے گا  کہ یہ بچےزیادہ تر کن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے معاشی حالات کیا ہیں ،لہذا سرکاری سطح پر لیبر ڈیپارٹمنٹ ایک سروے کر رہی ہے جس کے مکمل ہونے پر تفصیلات کے مطابق عملدرآمد کرنے کی بھرپور کوشیش کی جائے گی ۔خیبرپختونخوا کے آٹھ اضلاع بشمول ضم شدہ ضلع مومند میں بھی اس وقت چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں موجود ہیں دوہزار دس چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر ایکٹ کے تحت صوبائی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن فعال ہےاوربارہ اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بھی کام کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بچے نہ صرف گھریلو مشقت جھیل رہے ہیں بلکہ دوران ملازمت تشدد کا شکار بھی ہورہے ہیں ۔
 دی ہیری ویلفیر ایسوسیشن ) ( پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ) اور انسٹیٹوٹ فار سوشل جسٹس ارگنائزیشن ان تین اداروں نے پاکستان میں دوہزار دس سے دو ہزار بیس کے دوران چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کی تفصیلات جاری کیں جس کے مطابق ملک بھر سے گھریلو بچہ مزدور پر جسمانی تشدد ، زیادتی اور قتل کے 140کیسز رپورٹ ہوئے تھے یہ اعداد و شمار میڈیا رپورٹس سے حاصل کئے گئے ،ان میں 79 فیصد پنجاب ، 14فیصد سندھ ، 06فیصد اسلام آباد اور محض 01فیصد خیبر پختونخوا سے تھے ، تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسا نہیں کہ خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مزدوروں پر تشدد نہیں کیا جاتا بلکہ اصل میں یہ کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے اگر پاکستان بھر سے ہی یہ کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوجائیں تو شائد سالانہ تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے ، گھریلو بچہ مزدور کے خیبر پختونخوا میں رپورٹ کیسز کے حوالے سے عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ دیکھا جائے تو یہاں ابھی تک کوئی ایسا بڑا یا ہائی پروفائل کیس رپورٹ نہیں ہوا جیسا کہ جنوری دوہزار سترہ میں طیبہ تشدد کیس جو اسلام آباد کے ایک جج کے گھر کا کیس تھا جہاں بچی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ان کے مطابق یہ کیس اور اس میں ہونے والے فیصلے کے خلاف سول سوسائٹی نے اپنا شدید احتجاج تو ریکارڈ کروایا ہی تھا ساتھ ہی یہ کیس ایک سوال بھی چھوڑ گیا کہ اٹھارہ ہزار میں فروخت کردی جانے والی بیٹی طیبہ کو اس کے انہی والدین کو کیوں سونپا گیا جو اسے بیچ چکے تھے ، اور کیا ایسے حالات سے گزرنے والے بچے پھر خود اپنے ہی گھروں میں محفوظ رہتے ہیں ایسے واقعات ہر روز نہ جانے طیبہ جیسے  کتنے ہی بچوں کو درپیش ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں سماجی کارکن کے مطابق  اس مسلے کا ایک ہی حل ہے جو تعلیم میں مضمر ہے ،آرٹیکل 25Aکے مطابق پانچ  تا سولہ سال کے بچوں کو مفت تعلیم ان کا آئینی حق ہے لہذا حکومت اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے ، 2022میں خیبرپختونخوا محکمہ تعلیم اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مشترکہ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں اس وقت چار اعشاریہ سات ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں ان بچوں کا مستقبل یاتو  مزدوری کرنا یا پھر سٹریٹ چلڈرن بننا ہوتا ہے جب تک حکومت ان بچوں کو مفت تعلیم اور بنیادی ضروریات کی زمہ داری کا بیڑہ نہیں اٹھاتی تب تک فاطمہ جیسے ہزاروں بچے کسی نہ کسی انیکسی میں مشقت کے بوجھ اور تشدد کے واقعات کے بعد دبی آواز سے سسکتےرہیں گے