پرانی یادیں 

گزرے واقعات کو لکھنا ہو یا موجود حالات کوپیش کرنا اہل قلم انہیں پڑھنے والوں کیلئے معلومات افزا اور دلچسپ بنا دیتے ہیں،یہ ایک قلمکار کی انفرادیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی یاداشتوں کو ایسے انداز میں مرتب کرے کہ پڑھنے والے اپنے آپ کو اسی ماحول کو حصہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جس کے بارے میں مصنف بیان کرتا ہے۔ایسی تحریریں صدا بہار ہوتی ہیں اور ہر دور میں قارئین کی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔ ایسی ہی تحریر میں معروف لکھاری آغا ناصر لکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد وطن پر ہماری ٹرین کراچی کینٹ ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو وہاں سے ہم سب بگھیوں پر سوار ہو کرروانہ ہوئے جسے کراچی میں وکٹوریہ کہا جاتا تھا ٗ جب ہم اپنی رہائش گاہ پہنچے تو صبح ہونیوالی تھی یہ مارٹن روڈ کے کوارٹرز تھے جہاں مجھے زندگی کے آنیوالے سولہ سال گزارنے تھے ٗ انہی کوارٹروں میں رہتے ہوئے میں نے سکول ٗکالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنا تھی ٗ اپنی ملازمت کا آغاز کرنا تھا ٗ ایک دلہن بیاہ کر لانا تھی ٗ پہلی بچی کاباپ بننا تھا اور اپنے باپ کے سائے سے محروم ہونا تھا۔پہلی نظر میں مجھے مارٹن روڈ پسند آیا ان چھوٹے چھوٹے کوارٹروں پر مٹی کی چھتیں ڈالی گئی تھیں ٗ یہ کشادہ علاقہ تھا ایک پتلی سی سڑک تھی جو تین ہٹی کو جیل سے ملاتی تھی ٗشاید اسی کا نام مارٹن روڈ تھا ٗسڑک کے پار ٗخار دار جھاڑیاں تھیں ٗکیکٹس کا جنگل تھا ٗببول کے درخت تھے ٗریت کے ٹیلے تھے اور ایک ندی تھی جس کا نام لیاری تھا یہاں کراچی شہر کی حدود ختم ہو جاتی تھیں ندی کے پار سندھ کی صحرائی زمین تھی جو کراچی کے عظیم تعمیری منصوبوں کا حصہ بننے کی منتظر تھی ٗ اس وقت کون جانتا تھا کہ انہی جنگلوں اور ریتلے میدانوں کے بطن سے مستقبل کی ان گنت نئی نئی بستیاں ابھریں گی۔سرکاری کوارٹروں کے اس سارے علاقہ میں دن رات تعمیری کام ہو رہا تھا ٗ اس وقت تک نہ یہاں بجلی تھی نہ پانی تھا نہ شہر آنے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ کی سہولت۔ ہمارے گھر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر جمشید روڈ کا پرانا علاقہ تھا جو عالیشان بنگلوں اور خوبصورت کوٹھیوں پر مشتمل تھا ان کے مکین زیادہ تر ہندو تھے جو پاکستان بننے کے بعد انہیں خالی کر کے چلے گئے تھے پورے شہر میں صرف ایک بس سروس تھی جسکا نام ”ایسٹ انڈیا ٹرانسپورٹ کمپنی“ تھا پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد اس کمپنی کا نام بدل کر محمد علی ٹرانسپورٹ کمپنی کر دیا گیا جو محمد علی سیٹھ نے خرید لی تھی شہر کے کچھ حصوں میں ٹرام کاریں بھی چلتی تھیں بسوں کی طرح یہ بھی بڑی محدود تھیں یہ کینٹ ریلوے سٹیشن سے صدر ہوتی ہوئی بندر روڈ اور پھر میری ویدر ٹاور سے گزر کر کیماڑی تک جاتی تھی جو کراچی کی بڑی بندرگاہ تھی۔مارٹن روڈ اور اس کے ارد گرد کے سارے زیر تعمیر علاقوں میں بہت رونق رہتی تھی کھیل کے میدان اور پارک بنانے کا کام زور شور سے جاری تھا غرض ہر طرف بڑی گہما گہمی رہتی تھی اور جب کوئی منصوبہ تکمیل کو پہنچتا تھا تو سارے علاقے میں جیسے جشن کا سا سماں ہو جاتا تھا ایک عجب طرح کی کامیابی کا احساس ہوتا مجھے یاد ہے جس رات مارٹن روڈ کے علاقہ میں بجلی آئی وہ رات سب لوگوں نے جاگ کر گزاری لگتا تھا جانے کتنی بڑی دولت مل گئی ہے۔“ اس متنخب اقتباس کا حاصل مطالعہ یادگار لمحات کو محفوظ کرنا ہے۔ کیونکہ وقت تیزی سے گزرتا جار ہاہے اور یہ کسی کیلئے رکتا نہیں، جاتے لمحات اپنے ساتھ بہت کچھ لے جاتے ہیں اور آنے والے لمحات جو کچھ اپنے ساتھ  نیا لاتے ہیں وہ پرانی یادوں پر دھول جما دیتے ہیں اور بہت کم ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ماضی سے ناطہ جوڑے رکھتے ہیں کیونکہ حال کی مصروفیات اور معمولات میں انسان اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے ماضی میں جھانکنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔