پاک بھارت مذاکراتی عمل

شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان وزرائے خارجہ سطح پر ملاقات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی دو طرفہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت میں مذکورہ کثیرالجہتی اجلاس میں شرکت کرکے پاکستان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کا جو پیغام دیا ہے وہ وقت کی ضرورت تھا اور اِسے عالمی سطح پر سراہا بھی گیا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کرنے میں بہت دلچسپی رکھتا ہے اور پاکستان کو تنہا کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو یقینا وزیرخارجہ کی سطح پر اجلاس میں پاکستان کی شرکت سے مایوسی ہوئی ہوگی۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے قبل بھی اِس بات کا کوئی امکان موجود نہیں تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے وزرائے خارجہ کسی غیرمعمولی اتفاق رائے کا اظہار کریں گے اور دونوں ممالک متنازع امور میں سرفہرست کشمیر پر اپنے اپنے دیرینہ مؤقف سے دستبردار ہوجائیں گے لیکن چند پرامید مبصرین کو امید تھی کہ دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان ذاتی بات چیت کم از کم ’برف‘ توڑ دے گی اور اِس ملاقات کے بعد بات چیت کی راہ ہموار ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم بنانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اِس تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات حل کئے جائیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے مذکورہ اجلاس سے اپنے خطاب میں ’سرحد پار دہشت گردی‘ پر قابو پانے کی ضرورت کے بارے میں جو تبصرہ کیا وہ یقینا پاکستان ہی کی طرف اشارہ ہے اور اگر بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہوتا‘ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتا تو اِس قسم کا غیرذمہ دارانہ اظہار نہ کیا جاتا جو کسی بھی صورت شائستہ و تعمیری نہیں ہے‘ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور اپنے کئی ہم منصبوں سے دو طرفہ ملاقاتیں کیں لیکن اُن کی تن تنہا (ون ٹو ون) ملاقات بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر سے نہیں ہو سکی‘ بلاول بھٹو نے اس حقیقت کا اعادہ بھی درست انداز میں کیا کہ دہشت گردی کو ’سفارتی پوائنٹ سکورنگ‘ کیلئے بطور ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ باضابطہ تحریری تقریر کے علاؤہ بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان اور اس کے اعلیٰ سفارت کار کے حوالے سے میڈیا کو دیئے گئے ریمارکس بھی متنازع رہے‘ ایسا لگ رہا تھا جیسے جے شنکر بھارتی حکومت کے بجائے حکمراں سیاسی جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)‘ کا کوئی ترجمان بول رہا ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ا وربھارت کو ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات کے حل کی کوششوں میں خلوص نیت سے حصہ لینا چاہئے اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تعلقات کی سمت و نوعیت درست کرنے کا ایک اور موقع ضائع کر دیا گیا‘حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکام خود اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار دراندازی میں کمی آئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسند عناصر کی حمایت سے متعلق پالیسیوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا اور اِس سے کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچا۔ اِس کے علاؤہ کشمیر پر جذباتی ردعمل ظاہر کر کے پاکستان کو تنہا کرنے اور مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے خلاف بھارت کی وحشیانہ کاروائیاں کرنے کا جواز بھی بھارت کو فراہم کیا گیا اور بالآخر مقبوضہ کشمیر کو حاصل تھوڑی بہت خودمختاری بھی اِس سے چھین لی گئی‘آج مقبوضہ کشمیر کے باشندے بدترین ریاستی تشدد اور ظلم کا سامنا کر رہے ہیں‘ ماضی تجربات سے حاصل نتائج سے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو دانشمندانہ اور عملی سفارتی راستہ اختیار کرنے کی ترغیب ملنی چاہئے تاکہ بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے حقوق کے لئے مضبوط مؤقف اختیار کیا جا سکے‘ دریں اثنا اگر دونوں فریق گزشتہ سات دہائیوں کے تعلقات کو صحیح معنوں میں درست کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بنا پیشگی شرائط مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے لئے بات چیت ہی واحد صورت ہے اور اِس بات چیت کیلئے زیادہ سازگار ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے‘ شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کا سربراہ اجلاس جولائی میں بھارت میں ہونا ہے۔ اُمید ہے کہ اس مرتبہ دوطرفہ امن کو فروغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔