ماحول دوست توانائی

گزشتہ چند برس کے دوران ماحولیات تحفظ کے حوالے سے عوام و خواص کے شعور کی سطح بلند ہوئی ہے اُور قومی فیصلہ سازوں نے ماحول کو ترجیح بناتے ہوئے کاربن کا اخراج مرحلہ وار ختم کرنے اور توانائی کی منصفانہ ترتیب و ترسیل میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اِس سلسلے میں غوروخوض کے لئے کئی ایک عالمی اجلاس ہوئے ہیں جن میں تازہ ترین حال ہی میں دبئی میں ہوا اُور اِس میں آب و ہوا کے حوالے سے ہونے والی بحث میں کاربن کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت کی توثیق کی گئی۔ بنیادی ضرورت یہ ہے کہ کرہ¿ ارض کو گرم کرنے والے ایندھن کا استعمال نہ کیا جائے اُور اِس حوالے سے عالمی سطح پر ’اتفاق رائے‘ بھی پایا جاتا ہے۔ فوسل ایندھن ترک کرنے کے لئے زیادہ سخت ڈیڈ لائن مطلوب ہوتی ہے لیکن گزشتہ ماہ دسمبر میں پہلی بار بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تیل‘ کوئلہ اور گیس کا استعمال کرنے کے بارے میں بھی عالمی اتفاق رائے دیکھا گیا ہے‘ جو اپنی جگہ حیرت کا باعث ہے۔گزشتہ سال قاہرہ میں ہونے والے ماحولیاتی سربراہ اجلاس میں امیر ممالک نے ماحولیاتی آلودگی اور ناانصافیوں کا سامنا کرنے والے ممالک اُور برادریوں کے لئے وسائل فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا اگرچہ اِس حکمت عملی جس کی میزبانی ورلڈ بینک نے کی اِسے پورا نہیں کیا جا سکا اُور پاکستان جیسے عالمی جنوب کے ممالک بار بار ہونے والی موسمیاتی تباہی سے نمٹنے کے لئے مختص کئے جانے والی تقریبا ًنصف ارب ڈالر کی فنڈنگ کی راہ دیکھ رہے ہیں جو ماحولیاتی تباہی اُور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی بھی نہیں ہے۔ سرمایہ دار ممالک طویل عرصے سے یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ عالمی جنوب کے ممالک (جن میں پاکستان بھی شامل ہے) کو ماحول دوست (سبز) ٹیکنالوجی کے استعمال میں تکنیکی و مالی مدد دیں گے تاکہ پاکستان صنعتی دنیا کے مایوس کن اخراج کے ریکارڈ کی تقلید نہ کرے جس نے ہمیں موجودہ آب و ہوا کے بحران سے دوچار کر رکھا ہے تاہم اس طرح کے مقاصد کے لئے بہت کم امداد فراہم کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں‘ بھارت جیسے بڑے ممالک اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے عمل میں گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج میں سب سے آگے ہیں۔ خوشحال ممالک ماحولیاتی تحفظ پر خاص توجہ دیتے ہیں اور اگر ماحول دوست حکمت عملیاں اپنائی جائیں تو اِس سے غربت میں بھی کمی آئے گی۔سبز توانائی کا انتخاب آسان نہیں کیونکہ متبادل توانائی کی تلاش نے بھی غیر متوقع طور پر مسائل پیدا کئے ہیں۔ مثال کے طور پر مکئی ایتھنول اور سویا بائیو فیول کی طلب کی وجہ سے غذائی افراط زر میں اضافہ ہوا ہے‘ غذائی افراط زر کا مطلب غربت میں اضافہ ہے جو حقیقت میں غیر مو¿ثر طریقہ کار ثابت ہو رہا ہے۔ شمسی توانائی جیسے متبادل ذریعے سے وسیع پیمانے پر بہتری آئی ہے اُور اِس سے لاگت میں بھی کمی آئی ہے لیکن شمسی توانائی میں بیٹریوں کا استعمال ہوتا ہے جو ماحول دوست نہیں ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لئے بیٹریوں کی ضرورت پڑتی ہے اُور بیٹری بنانے کے لئے جو خام مال استعمال ہوتا ہے وہ گرین ٹیکنالوجیز کی پیداوار کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جمہوریہ کانگو میں کوبالٹ اور تانبے کی کانوں میں کام کرنے والے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے خوفناک حالات سامنے آئے ہیں جو چین اور مغربی ممالک کی کمپنیوں کی جانب سے کوبالٹ اور تانبے کی طلب پورا کرنے کی کوشش میں زیادہ کام کر رہے ہیں اُور اُن کے کام کاج کے حالات بھی قابل بیان حد تک خراب ہیں۔ ایسی بہت سی واضح مثالیں موجود ہیں جن میں سبز ٹیکنالوجی کو اپنانے والے ممالک اُور تجربات اپنی اپنی جگہ ناکام ہوئے ہیں۔ کاربن کا استعمال کم کرنے کے لئے کاربن کا مزید استعمال کسی بھی صورت دانشمندی نہیں ہے۔ دنیا کو ماحول دوست اور بہتر مستقبل کی تلاش ہے جو سماجی و معاشی انصاف اور مساوات کے اصولوں پر قائم ہو اُور اِس میں ایک دوسرے کے ساتھ بامعنی تعاون بھی شامل حال ہونا چاہئے۔(بشکریہ دی ٹریبیون۔ تحریر سید ایم علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)