جھلی چلی گئی

 (روزنامہ آج میں شائع ہونیوالے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بیحد پسند کئے‘ ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کیلئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)روحی بانو بیک وقت دو دنیاؤں میں سانس لیتی تھی ایک وہ دنیا جہاں ادب ”فلسفے‘ نفسیات اور فنون لطیفہ کی باتیں ہوتی تھیں۔ جہاں انور سجاد‘ منو بھائی‘ اشفاق احمد اور یاورحیات ایسے لوگ تھے۔ وہ ان جیسی ہوجانا چاہتی تھی لیکن جب وہ واپس ایک اور دنیا میں جاتی تھی تو وہ محض ہوس اور پیسے کی دنیا ہوتی تھی جو اسے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی تھی۔ انہی تضادات میں سے عذابوں نے جنم لیا۔ اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ وہ بندھنوں میں سے نکل جائے۔ فلمی دنیا کی خاک چھانی۔ فضول قسم کی فلمیں اس کے حصے میں آئیں۔ شادی کا تجربہ بھی ناکام ہو گیا۔ اس کا جوان بیٹا عجیب سے حالات میں مرگیا۔ اب تو وہ کملی ہوگئی۔ دربدر ہوئی جھلی ہوگئی۔ نہ اپنی خبر‘ نہ لباس کی پرواہ اور نہ یہ پرواہ کہ کس کے ساتھ چل دی ہے۔ہنستی اور روتی تو وہ پہلے بھی بہت تھی یہاں تک کہ شبہ ہوتا تھا کہ اسے کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہے لیکن اب وہ اپنے بیٹے کیلئے اتنا روتی تھی کہ ہمسائے بھی تنگ آگئے اور آپ کو پتہ ہے کہ جن ماؤں کے جوان بچے مر جاتے ہیں تو وہ کیسے روتی ہیں؟ جب لوگ انکے رونے دھونے سے اکتا جاتے ہیں تو وہ سب کے سامنے نہیں‘ چھپ چھپ کر روتی ہیں۔ اپنے زمانے کی سب سے بڑی اداکارہ‘ سب سے خوش نظر اور خوش جمال لڑکی دنوں میں بوڑھی ہو گئی۔ بکھرے ہوئے سفید بال‘ میل سے اٹے ہوئے گندے لباس اور چہرے پر جھریاں‘ اس پر ایک فقیرنی کا گمان ہونے لگا۔ لوگ اس پر ترس کھا کر کچھ مدد کر دیتے۔ 1968ء کا زمانہ تھا‘ پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز تھا جب میں نے اس کے ساتھ پہلا ڈرامہ اشفاق احمد کا تحریر کردہ کیا۔ قوی خان کے ساتھ میں ایک نفسیات دان کے روپ میں آیا۔ میں قوی اور روحی کی نفسیاتی الجھنوں کا مداوا کرتا تھا۔ بعد ازاں زیادہ نہیں چند ایک ڈراموں میں ہم آمنے سامنے ہوئے اور ان میں ایک ڈرامہ اشفاق صاحب کا ہی لکھا ہوا تھا۔ یہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے ایک شدیدعشق کی داستان تھی اور یہ عشق یکطرفہ تھا کسی حد تک۔ روحی کا نام ڈرامے میں کیا تھا مجھے یاد نہیں البتہ حبیب اس میں تھا اور جب کبھی ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا تھا تو روحی اپنے حبیب کو دیکھ کر گنگ رہ جاتی اور صرف روتی جاتی۔ روتی ہی جاتی۔ ایک ایسے ہی منظر میں میرے سامنے آئی اور آنسو اس کی آنکھوں سے بارش کی مانند گرنے لگے۔ وہ روتی گئی۔ منظر ختم ہوگیا لیکن روحی بانو نے رونا بند نہ کیا۔ میں نے اسے کندھوں سے جھنجوڑا‘ چپ کرانے کی کوشش کی کہ روحی سین اوکے ہوگیا ہے۔ کٹ کی آواز آچکی ہے لیکن نہیں۔ بہت مشکل سے اس نے اپنے آپ پر قابو پایا۔ جب میں اداکاری ترک کرکے ڈرامہ نگاری اور کمپیئرنگ کی جانب چلا گیا تو وہ جہاں ملتی ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہتی“ یہ میرا ہیرو ہے‘ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ آج میرے موبائل پر دھڑا دھڑروحی کی تصویریں منتقل ہوتی گئیں۔ خاص طور پر ایک ایسی تصویر جو شیخ منظور الٰہی کے گھر میں اتاری گئی تھی۔ ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے سے بیٹھے ہیں اور ہم دونوں ابھی جوان تھے۔ کچھ لوگ جانے کہاں سے ہم دونوں کے ڈراموں کی تصویریں تلاش کرکے مجھے بھتیجے گئے اور میں حیران ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور تب میری بیگم نے میری سٹڈی میں جھانک کر کہا”روحی بانو بھی مر گئی ہے“ اور اس کے ساتھ میڈیا کی جانب سے فون آنے لگے کہ آپ کے تاثرات کیا ہیں۔ یہ روحی بانو تھی جس نے اپنے پاگل پن میں جادوئی حقیقت نگاری کی بنیاد رکھی۔ اس کی اداکاری میں جادوگری کے کرشمے تھے جن میں حقیقت کی پرچھائیاں مدغم ہوتی تھیں۔ وہ اکثر ڈائیلاگ بولتے ہوئے ایک وارفتگی میں چلی جاتی۔ بے خبر ہوجاتی۔ سیٹ سے لاتعلق سی ہوجاتی اور اسے واپس لانا پڑتا۔ ایک آدھ بار تو میں اپنے مکالمے بولنا بھول گیا۔ بس اسے دیکھتا رہا۔ عجیب جھلی جادو گرنی تھی۔اس دنیا کے سٹیج پر اور بھی اداکارائیں آئیں گی پر روحی بانو جیسی اور کوئی نہ آئے گی۔