شب کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں 

یہ جو دور پار کے دیسوں میں شعر و ادب کی نئی بستیاں بنی ہوئی ہیں فروغ ادب کے لئے ان بستیوں کے باسیوں کی شبانہ روز کی سنجیدہ کوششیں،بے پناہ دلچسپی، فعال کردار اور بڑے پیمانے پر شاندار ادبی تقریبات کا انعقاد اب معمول کی سرگرمی لگنے لگی ہے یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ سمندر پار کی دنیا میں یاروں کا اکٹھ اور خوش گپیاں تو ایک طرف ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت تلے رہنے والے بھی بسا اوقات ہفتوں ایک دوسرے سے نہیں مل پاتے لیکن اس کے باوجود ان نئی ادبی بستیوں میں نہ تو عمدہ تقریبات کے انعقاد کی کمی ہے، نہ سخن وروں کی تخلیقی وفور میں کوئی کھنڈت پڑتی ہے اور نہ ہی شعر و افسانہ کے مجموعوں کی مسلسل اشاعت میں کوئی تعطل پیدا ہوتا ہے اور پھر ان احباب کی کتابوں کی رونمائی اور پذیرائی بھی آپس میں مل بیٹھنے اور شعری نشستوں کا ایک بہانہ بن جاتا ہے، گزشتہ سال ستمبر میں یو کے میں رومی سو سائٹی برمنگھم کے زیر اہتمام سونیا خان کی کتاب ’آدھی صدی میں کتنی صدیاں“ کی رونمائی کے لئے یو کے آیا تو یکے بعد دیگرے کئی کتب کی رونمائی کی تقاریب میں شریک ہوا جن میں کاروان ادب برطانیہ کے روح  رواں دوست عزیز صابر رضا کی دو کتابیں ناول،مٹھی دوزخ اور شعری مجموعہ ’رابطے‘ کی تقاریب ناٹنگھم کے بزم ادب برطانیہ اور پاکستان فورم یو کے کے تحت اور یارک شائر ادبی فورم کے زیر اہتمام بریڈ فورڈ میں اخوت کے امجد ثاقب کی کتاب ’سیلاب کی کہانی‘ کی پذیرائی کی تقریب بھی شامل تھی، اسی طرح گزشتہ برس جب ڈاکٹر عامر بیگ کے شعری مجموعہ ’محبت استخارہ ہے‘ کی رونمائی کی تقریب کے لئے نیو جرسی پہنچا تو ساتھ ہی نیو یارک میں ڈاکٹر محمد شفیق کے شعری مجموعے ’لذت نارسائی‘ اور ہیوسٹن میں شاہ غزالی کے شعری مجموعہ ’چراغ ِ عشق“ کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہوا،اب کے بھی اگست کی چوتھی شام برمنگھم میں مقیم دبستان لائل پور کے اہم شاعر اقبال نوید کے شعری مجموعہ ’بند مٹھی میں جگنو‘ کی تقریب پذیرائی پروفیسر ظفر منصور کی زیر صدارت ’فانوس اور برمنگھم پوئٹس کے زیر اہتمام ہونے جارہی ہے جس کے بعد عالمی مشاعرہ ہوگا جس میں برطانیہ کے بہت سے معتبر شاعر شریک ہو رہے ہیں‘اسی طرح گزشتہ روز رومی سو سائٹی یو
 کے بر منگھم نے مجھ ہیچ مدان کے اعزاز میں ایک ”شام ملاقات“ کا اہتمام کیا جس کی صدارت ’نروان گھڑی کا سپنا‘ جیسے عمدہ شعری مجموعہ کے شاعر ڈاکٹر ثاقب ندیم نے کی،جب کہ معروف شاعر اور فکشن رائٹر جاوید اختر چودھری سمیت شعر و ادب سے جڑے ہوئے شہر کے بہت سے احباب شریک محفل تھے، معروف شاعر و دانشور پروفیسر محمود رضا کی بہت ہی عمدہ نظامت نے سماں باندھے رکھا اور دو گھنٹوں پر محیط اردو اور پنجابی کی اس شعری نشست میں بہت عمدہ شعر پڑھا اور سنا گیا سچی بات یہ بھی ہے برمنگھم کے شائقین ادب کے ذوق کو مہمیز کرنے کے لئے رومی سوسائٹی برمنگھم مسلسل کوشاں ہے ابھی کچھ ہی دن پہلے سوسائٹی نے ڈاکٹر حسن جاوید کی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مربوط و مبسوط تاریخ پر مبنی ضخیم کتاب ’سورج پر کمند‘ کی تقریب رونمائی کا ڈول ڈالا کتاب کی نقاب کشائی رومی سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر عامر نواؔز نے کی جب کہ معروف سابق سٹوڈنٹ لیڈر اور رائٹر راجہ محمد انور،اکرم خان قائم خانی،یوسف ابراہیم اور صدر محفل جاوید اختر چودھری سمیت کئی زعماء نے کتاب کے حوالے سے گفتگو کی تھی جس کی باز گشت نہ صرف برمنگھم اور یو کے میں اب تک سنائی دے رہی ہے بلکہ پاکستان کے اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھی اس کی تحریری اور تصویری رپورٹس کو بہت پڑھا اور پسند کیا گیا، برمنگھم کے علاوہ بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں بھی ایک تواتر کے ساتھ ادبی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں،پاکستان کے بہت سے ادبی زعماء کم و بیش ہر سال انہی موسموں میں ان تقریبات کی رونق بڑھانے مدعو کئے جاتے ہیں ابھی جون ہی کے مہینے میں بریڈ فورڈ میں اشتیاق میرؔ اور ان کے احباب کی فعال تنظیم یارک شائر ادبی فورم کے زیر اہتمام عالمی مشاعرہ کے لئے معروف سخنور
 ناصرہ زبیری، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور سکندر مطرب شریک ہوئے اسی طرح اگست میں کاروان ادب برطانیہ کے مشاعرہ میں معروف ترقی پسندشاعر ڈاکٹر سعادت سعید کی شرکت متوقع ہے، ادھر لوٹن میں علی ارمان نے گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی ہراول کی ایک شام ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام کر رکھی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دور پار کی ان تمام مصروف بستیوں میں کار ِ ادب اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور امریکہ، کینیڈا اور دوسرے سمندر پار ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی بڑے ادبی مراکز قائم ہیں اور فروغ شعر وادب کے لئے ان کی خدمات کسی طور پاکستان یا سرحد پار کے بڑے دبستانوں سے کم نہیں ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ سمندر پار کی ان نئی ادبی بستیوں کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں کے روزو شب بہت ہی مصروف گزرتے ہیں اور جیسے کہ میں نے کہا کہ ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت تلے رہنے والے بھی بسا اوقات ہفتوں ایک دوسرے سے نہیں مل پاتے اور یہاں کے باسیوں کو جب بھی تھوڑی بہت فرصت میسر آتی ہے تو یہ اپنی نیندیں پوری کرتے ہیں یا پھر سال میں ایک دو بار بچوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کسی اور شہر یا کسی ملک نکل جاتے ہیں،اس کے باوجود قلم قبیلہ کے احباب کار ادب کے لئے کسی طور پچیسواں گھنٹہ نکال کر ادبی ہنگامے بپا کرتے رہتے ہیں بلکہ مسلسل کر رہے ہیں اس نے کم از کم بعض کم گوش لوگوں کے اس مفروضے کو تو غلط ثابت کر دیا کہ شاعری یا ادب ”شغل ِ بے کاراں“ ہے اوراس کے بر عکس اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ شعر و ادب سے جڑے ہوئے لوگ چنیدہ ہوتے ہیں‘مان لیں کہ وہ جاب پر ہوتے ہیں اس لئے ان کے اوقات کار حالات،موسم اور وقت کی ترتیب سے آزاد ہوتے ہیں، اب لکھنے والے لوگوں کی جان کو بہت سے روگ لگے ہوئے ہیں اب وہ میر و ؔغالب ؔجیسے اساتذہ کے بر عکس ایک مشکل دور میں علم و ادب کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں لیکن بایں ہمہ وہ شعر و ادب کی قندیل کو نہ صرف روشن رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی لو کو بھی تیزکئے ہوئے ہیں، تنویر ؔسپرا یاد آگئے، 
دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں 
 شب کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں