ہو سبز پہاڑوں کا سفر، برف گری ہو اور شام مری ہو

  گزشتہ سوموار کو امریکا میں میموریل ڈے منانے کے حوالے سے تقریبات ہوئیں یہ دن ان فو جیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے امریکی خانہ جنگی کے دوران جان کا نذرانہ دیا اس دن کو منانے کا آغاز امریکی خانہ جنگی سے آغاز ہوا‘ جب 1861ء اور 1865ء کے درمیان غلامی کے تنازع میں یونین اور کنفیڈریٹ کی مخالف فورسز میں شامل چھ لاکھ سے زائد فوجیوں کی جان گئی تھی پہلے پہل یہ صرف واٹر لو نیویارک میں منایا جاتا رہا مگر بعد میں یہ مئی کی تیس تاریخ کو رسمی طور پر منایا جانے لگا لیکن جب کانگریس نے 1971ء  میں ایک قانون کے ذریعہ میموریل ڈے کو 30 مئی کی بجائے مئی کے آخری پیر کو منانے کی منظوری دی تو یہ امریکن منچلوں کے نزدیک ”لانگ ویک اینڈ“ بن گیا‘اس لئے بچھڑے ہوئے فوجیوں کی یاد میں تقریبات تو ہوتی ہیں مگر تین دن چھٹی ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ دن ایک طرح سے موسم گرما کے غیر سرکاری آغاز کے حوالے سے جانا جاتا ہے بلکہ جیسا ہر لانگ ویک اینڈ پر ہوتا ہے یہ اشیا ء کی بڑی خرید و فروخت کا دن بھی بن گیا، پھر امریکاکے باسیوں کے مزاج کے مطابق یہ دن پک نک منانے،بیس بال کھیلنے، سفر کے لئے گھر سے نکلنا اور پیدل دوڑنے جیسی تفریحی سرگرمیوں کے حوالے سے مشہور ہو گیا زیادہ تر امریکی اپنے مزاج کے مطابق تفریح کے لئے اپنے گھروں اور شہروں سے تفریحی مقامات کی طرف نکل جاتے ہیں‘ممکن ہے نیو یارک، کیلی فورنیا اور شکاگو کی طرف کے بڑے مراکز میں اس دن کی مناسبت سے بڑی تقریبات بھی ہوتی ہوں لیکن عموماً ایسا کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے،کولو راڈو، امریکہ کی بہت ہی خوبصورت ریاست ہے تاہم نسبتاً ایک دھیما اور خاموش مزاج رکھتی ہے اب تو خیر دوسری سٹیٹس کے باسی ادھر کا کا رخ کرنے لگے ہیں کیونکہ بہت سی ریاستوں میں ممنوع ایک خاص ”ڈرگ، مروانا“ کولوراڈو میں ابھی ممنوع نہیں ہے مجھے یاد ہے کہ جب بارک اوباما امریکہ کے صدر تھے تو انہوں نے ایک بیان میں مروانا کو شراب کی نسبت کم خطر ناک قرار دیا تھا تاہم اسی سانس میں یہ بھی کہا تھا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو سمجھا دیا ہے کہ یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے کچھ ہی عرصہ پہلے کیلی فورنیا میں اس کوممنوع قرار دیا گیا ہے تو اس نشہ کے عادی لوگوں نے کولو راڈو کا رخ کرنا شروع کر دیا، اب تو خیر گرما کا موسم شروع ہونے والا ہے لیکن سردیوں میں جب پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں تو دنیا بھر سے سکینگ کے شوقین بھی کولوراڈو کا رخ کرتے ہیں اور پھر یہاں کے پہاڑی علاقوں میں سکینگ کے مقابلے ہوتے ہیں اور منفی تیس سے لے کر منفی پچاس تک کے درجہ حرارت میں ان کی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں میموریل ڈے ہونے کے ناتے لانگ ویک اینڈ کے لئے دوسروں کی طرح افراز علی سید اور معروف افسانہ و ناول نگار داؤد حسین عابد کی فیمیلز نے بھی یہ تین دن ماؤنٹین میں گزارنے کا فیصلہ کیا، اس بار ان کا انتخاب اسپن کے جادوئی شہر کے پاس ہی ”سنو میس“ کا قصبہ تھا، میں پہلے بھی کئی بار اسپن آ چکا ہوں یہ علاقہ سطح سمندر سے کوئی آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے گویا پاکستان میں مری سے اونچا اور ایوبیہ کے کم و بیش برابر ہے لیکن سیزن میں یہاں کی یخ بستہ ہوائیں رگوں میں خون منجمد کر دیتی ہیں پھر یہاں سے آس پاس کئی ایک خوبصورت جگہیں ہیں 12ہزار فٹ کی بلندی پر ”انڈی پنڈنس پاس“کا درختوں سے گھرا خوبصورت راستہ تو ہر قدم پر رک جانے کی دعوت دیتا ہے‘ افراز علی سید نے ایک ”کنڈومینیم“ کا بندو بست کیا ہوا تھا، یہ ان علاقوں میں ایک طرح کا وسیع و عریض اپارٹمنٹ ہوتا ہے جو کئی ایک بیڈ رومز‘ لاؤنج‘کچن‘ڈائننگ ایریا پر مشتمل ہوتا ہے اور زندگی کی ساری سہولیات سے آراستہ ہوتا ہے اور پھر اس کے ٹیرس سے آپ کو دور دور تک قدرتی نظارے نظر آتے ہیں، فطرت کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جدھر بھی نکل جائیں سہانا موسم آپ کو ہلارے دینے لگتا ہے، ارادہ تو یہی تھا کہ تڑکے ہی نکل جائیں کہ ایک تو سفر ساڑھے چار پانچ گھنٹہ کا ہے پھر پہاڑی علاقہ ہے اس پر مستزاد ٹریفک پھر بھی نکلتے نکلتے نو تو بج ہی گئے، تاہم راستہ کی خوبصورتی نے مسحور کئے رکھا افراز علی سید اور داؤد حسین عابد نے کتنا انجوائے کیا کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ وہ ڈرائیو کر رہے تھے تاہم باقی افراد نے خوب انجوائے کیا ہمارا پہلا پڑاؤ ”ڈلن لیک“ تھی جس کے ارد گرد اب آبادی رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے، چھوٹی سی ”بزریا“ میں بڑے سٹورز اور شاپنگ مالز ہیں، خواتین کو تو شاپنگ کا بہانہ چاہئے۔وہ ادھر چلی گئیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر میں موسم سے دو باتیں کرنے کے بعد تصویریں بنانے لگا، داؤد حسین عابد چند لمحوں کے لئے کسٹمرز سروس کچھ معلومات لینے گیا اور جلد ہی ہنستا ہوا باہر آیا اور کہنے لگا اندر ایک معمر امریکی نقشہ کھولے بیٹھا ہوا تھا مجھے حیرانی ہوئی کہ نیوی گیشن کے عروج کے زمانے میں وہ نقشہ کیوں دیکھ رہا ہے پو چھا تو کہنے لگے میں فون کی بجائے نقشہ کی مدد سے سفر کرتا ہوں، داؤد حسین عابد نے ہمدم دیرینہ معروف شاعر،افسانہ نگار اور روزنامہ آج کے مقبول کالمسٹ ارشاد احمد صدیقی مرحوم کا ذکر چھیڑ دیا، مجھے وہ بتا رہا تھا کہ ان کے ساتھ ایک بار ماؤنٹین کا سفر کرچکا ہے اسے ڈلن جھیل سے لے کر اسپن اور وہاں سے دیگر علاقوں میں ایک ایک جگہ یاد تھی کہ کہاں مرحوم بیٹھے تھے کہاں تصویریں بنائی تھیں کہاں کیا بات کی تھی‘ داؤد عابد کو سب یاد تھا، وہ انہیں بہت مس کر رہا تھا۔ داؤد عابد کو ڈلن لیک کا یہ چھوٹا سا دلکش، خاموش اور رومانوی قصبہ بہت پسند ہے کہنے لگاکہ سبکدوشی کے بعد یہیں کہیں رہنا چاہتا ہوں۔امریکا کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ آپ نیویارک جیسے شہر میں ہوں یا ڈلن جھیل کی طر ح چند سو کی آبادی والے قصبے میں ہوں آپ کو زندگی کی ساری ضروریات بآسانی مل جاتی ہیں، ڈلن جھیل میں ہی نماز ظہر پڑھی گئی اور پھرہم اسی طرح رکتے چلتے سہ پہر کے لگ بھگ ہم ’سنو میس‘ میں پہلے سے لئے گئے ’کنڈومینیم“ ڈی تھری پہنچ گئے گاڑیوں سے سامان نکالا گیا جو کپڑوں کے علاوہ کھانے پینے کا بھی تھا، کشادہ لاؤنج کی میز پر ”اسپن نام کے کئی میگزین“ پڑے تھے عمارہ افراز نے سب سے پہلے ان پر ہلہ بولا حیران کن حد تک کتابیں پڑھنے والی دس سالہ عمارہ بڑی تقطیع کی کتنی ہی کتابیں پڑھ چکی ہے، کچھ دن پہلے دوست عزیز الطاف صدیقی نے ایک عشائیہ میں اپنی ایک کتاب کا تحفہ دیا جو گھر آتے ہی عمارہ سید نے دیکھنے کے لئے کتاب لی اور پھر اپنے بیڈ روم لے گئی‘ ابھی تک میں اس سے محروم ہوں‘میں اس پر کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر مجھے تو کتاب کا نام بھی یاد نہیں اب سب مجھے یہی کہہ رہے ہیں جب عمارہ پڑھ لے تو اس سے پوچھ لینا اورپھر اپنا تبصرہ لکھ لینا میں نے کہا اسے تو دادی (رفعت علی سید) نے کب کا اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ جب بھی لوکیشن پر جاتی ہے تو اپنے تاثرات لکھ کر اسے سناتی ہے اس لئے تبصرہ بھی وہی لکھ دے میں فارغ ہو جاؤں گا۔ گرم گرم چائے کے ایک کپ نے سب کو تازہ دم کر دیا اور سہ پہر کی نماز پڑھ کر ہم اسپن شہر میں شام منانے چل پڑے۔ پہاڑوں کے ہر سفر میں دوست عزیز سجاد بابرمرحوم کی غزل ہمیشہ ہم سفر ہوتی ہے۔
 ہو سبز پہاڑوں کا سفر، برف گری ہو اور شام مری ہو
 اک موڑ پہ چمکے کوئی گھر برف گری ہو اور شام مری ہو