(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
عالمی سطح پر ہونیوالے سروے کے مطابق جسے ایک آرگنائزیشن نے مکمل کیا‘ اس میں پاکستان کے تین شہر عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ قرار دیئے گئے اگر چہ پاکستان کے ان شہروں کے بعد ہندوستان یا دیگر ممالک کے بھی کچھ شہر موجود ہیں مگر کیا اسے ہم اپنے لئے اعزاز سمجھیں کہ ہمارا شہر پشاور عالمی سطح پر آلودہ ترین شہروں میں سب سے پہلے نمبر پر ہے‘اسے ہم غیروں کی سازش بھی قرار دے سکتے ہیں مگر کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ ہمارا وہ شہر پشاور کہ جسے ہم پھولوں کے شہر سے تشبیہ دیتے تھے‘ جو روم میں بیٹھ کے احمد فرازؔ کے اشعار میں سجا‘ جو شاہ قبول اولیاء اور شیخ جنید پشاوریؒ کا مسکن بنا‘جو امیر حمزہؔ اور رحمانؔ بابا کی موجودگی کا لمس اب تک یاد کر رہا ہے وہ اب دُنیا کا آلودہ ترین شہر ہے‘ ہمارے شہر کے تاجر‘ دکاندار‘ دفاتر کے عملے کے لوگ یا دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کیا اس آلودگی سے متاثر نہیں؟ یقینا متاثر ہیں کہ ان کے کانوں میں شنوائی نہیں حکمرانوں کی بینائی غائب‘ ہر قدم گویا معکوس رفتار سے اٹھتا بیماریوں کے جھرمٹ میں ہمارے شہری جیتے اور شعراء و ادباء کے اشعار اور نثر سے شہر پشاور غائب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے لئے صرف بلدیاتی ادارے ہی ذمہ دار نہیں بلکہ ہمارے اِس شہر کا ہر باسی اپنے کردار اور عمل سے غفلت میں پڑا ہے‘ ہمارے گلی محلوں اور کوچوں میں رہنے والے مرد و خواتین اپنے علاقے کی صفائی سے اغماض برتتے ہوئے آلودہ ترین شہر میں زندگی کی متعفن سانسیں پوری کر رہے ہیں‘ یہ سروے جو 2018ء کے سال کی مناسبت سے جاری کیا گیا اسکی سب سے بڑی صداقت پشاور کی ہوا میں غلیظ گیسوں کی وہ فیصد شرح ہے جو دنیا بھر کے شہروں میں سب سے زیادہ ہے‘ اگر ہم کسی سائنسی دور میں جینے کے قائل ہوتے تو یہ سروے رپورٹ اپنے لئے تعزیانہ سمجھتے ہوئے سنبھلنے کی کوشش کرتے‘ہمارے کالج و یونیورسٹی میں کام کرنیوالے طلبا‘ طالبات و اساتذہ شاید اس موضوع کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس پر سوچا جائے یا اس حوالے سے کسی لائحہ عمل کو مرتب کر کے حکومتی سطح تک پہنچایا جائے‘یہ ثبوت کہ پشاور اس وقت دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے نہ صرف یہ کہ دل کو چیر دینے کیلئے کافی ہے بلکہ پشاور کی وہ ثقافت جو اپنے اندر ہزاروں سال کا وجود رکھتی ہے آج نہ صرف نوحہ کناں ہے بلکہ وہ اپنی تاریخ سے جان چھڑانا چاہتی ہے‘ وہ پشاور جسکا چپہ چپہ اپنی قدامت کا امین ہے‘ آج کثافت کی اس زیادتی پر اسکے اسباب کو ڈھونڈ رہا ہے‘ہمارے وہ انجینئرز‘ منصوبہ بندی کے ماہرین اور مستقبل کو جانچنے والے عبقری لوگ کہاں چھپے ہیں جو ہر ماہ لاکھوں روپے محض اس چیز کے لیتے ہیں کہ پشاور کی اس فضاء کو لطافتوں سے ہم کنار کیا جائیگا‘ مگر یہ لطیفہ اپنی جگہ برقرار رہا کہ اس سب کے باوجود پشاور کو یہ اعزاز ملا کہ وہ دنیا بھر میں 2018ء کا آلودہ ترین شہر ٹھہرا‘ یہ تمغہ کس کے سینے پر سجے گا؟ اس کا جواب ہر ایک کے پاس اس طور موجود ہے کہ پشاور کو اس حالت تک پہنچانے میں ہر شخص کا اپنا اپنا کردار موجود ہے‘ ہمارے وہ دعوے اب سچ کی تلاش میں ہیں جن میں یہ بلند بانگ دعوے موجود تھے کہ ہم پشاور کو ایک مرتبہ پھر پھولوں کا شہر بنائیں گے۔ ہم ’فروٹس فار آل‘ کیلئے تو کوشش کر رہے ہیں مگر اس سے پہلے کا قدم یہ ہے کہ ان پھلوں میں زہر گُھلنے سے پہلے ہمارے حال پر آپکا یہ رحم ہی کافی ہوگا کہ پشاور کی فضاء کو معطر نہ سہی‘ شفاف نہ سہی کم از کم صاف توکردیں اور ہمارے ماتھے کا یہ جھومر کہ ہم غلیظ ترین شہر کے باسی ہیں اسے جلد از جلد اتار دیں۔