ایران‘اسرائیل اور غزہ

 اسرائیل کئی برسوں سے ایران‘ شام اور لبنان میں اپنی مرضی کے مقامات پر بلا خوف حملے کرتا رہا ہے‘گذشتہ عشرے میں اس نے ایران کے کئی سائنسدان‘  ایٹمی ماہرین اور اعلیٰ فوجی افسرمیزائل حملوں میں ہلاک کئے اوراپنی سرزمین پر کسی جوابی حملے کے نہ ہونے کی صورت میں فاتح بنا رہا۔ تیرہ اپریل کے ایرانی حملے کے بعد بنجا من نتن یاہو کی انتہا پسند جنگی کابینہ سے ایران کے خلاف کسی بڑے حملے کی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن 19 اپریل کو اسرائیل کے ایران پر جوابی حملے کو سنجیدہ فکر مبصرین بھی طاقت کے مظاہرے سے زیادہ تماشہ قرار دے رہے ہیں۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب وسطی ایران کے شہر اصفہان پر ہونیوالے اس ڈرون حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ اس حملے کے بعد کئی گھنٹوں تک اسرائیل‘ ایران اور امریکہ خاموش رہے۔ ہفتے کے دن ایران کی دو بڑی نیوز ایجنسیاں‘  IRNA اور FARS نے تو کوئی بیان جاری نہ کیا مگر اس کے میڈیا مبصرین یہ کہہ رہے تھے کہ حملہ ہوا تو ہے مگر یہ پتہ نہیں چلاکہ یہ ڈرون کس نے بھیجے تھے۔ اسی روزایران کے نجی نیوز چینل اصفہان شہر کے مختلف علاقوں کی ویڈیوز دکھا کر یہ کہتے رہے کہ وہاں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرنے والے تمام مبصرین اس بات پر متفق تھے کہ اس جنگ کا کوئی فریق بھی کشیدگی میں اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔سب موجودہ Status Quo کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔یہ اگر درست ہے تو کیا اسرائیل نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اس کی Deterrence Supremacy یعنی مزاحمتی برتری ختم ہو گئی ہے۔ اب ایران اسکی ہر جارحیت کا بھرپور جواب دے گااور اسے اس کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ اس سوال کے جو مختلف جوابات اسرائیلی میڈیا دے رہا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے اصفہان کے نیوکلیئر پلانٹ کے قریب ہی ڈرون اور میزائل پھینک کر یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اگر چاہیں تو ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر سکتے ہیں مگر ہم فی الحال اسے ضروری نہیں سمجھتے۔امریکہ میں اسرائیل کی پرستار میڈیا شخصیتوں کی کوئی کمی نہیں‘ ان میں سے اکثر واشنگٹن پوسٹ‘ نیو یارک ٹائمز اور سی این این جیسے بڑے اداروں سے وابستہ ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے تجزیہ نگار David Ignatius نے 19  اپریل کے کالم میں لکھا ہے کہ ”بحران کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ منہ بند کر لیا جائے اور یہ کام اسرائیل‘ ایران اور امریکہ نے بڑی مہارت سے کیا ہے۔“  کالم نگار نے اسرائیل کے اصفہان پر بے ضرر حملے کو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ آج سے پہلے اسرائیل نے ایران پر کیے جانے والے ہر حملے میں مطلوبہ نتائج حاصل کیے‘ وہ اگر چاہے تو دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے مگر وہ فی لحال ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس نے اپنی پرانی Policy Deterrence Domination  یعنی چھا جانیوالی مزاحمت کی پالیسی ترک کر دی ہے‘  اسکی ایک وجہ تو امریکہ کا دباؤ ہے اور دوسری یہ  کہ وہ ممالک جنہوں نے تیرہ اپریل کے ایرانی حملے میں اسرائیل پر برسنے والے تین سو سے زیادہ ڈرون اور میزائل تباہ کیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسرائیل ایک بڑا جوابی حملہ کرے۔ David Ignatius نے لکھا ہے کہ اسکی سوچ کے مطابقIsrael is behaving like the leader of a regional coalition against Iran یعنی اسرائیل کا طرز عمل ایران کے خلاف ایک علاقائی اتحاد کے لیڈر جیسا ہے۔ کالم نگار کے مطابق انیس اپریل کو ایک معمولی حملہ کر کے اسرائیل نے اردن‘ سعودی عرب‘  امریکہ‘  برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ انکے مفادات کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتا اور ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی من مانی کرتے ہوئے ایران پر ایک بڑا حملہ کر دیتا تو امریکہ سمیت اسکے تمام اتحادی ناراض ہو جاتے۔امریکی کالم نگار کے اس تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ اسے Paradigm Shift کہا جا سکتا ہے۔ اب اسرائیل مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عرب اور مسلمان دشمنوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی ریاست کا کردار ادا نہیں کریگا بلکہ اب وہ اپنے نئے اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلے گا۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ عادت بد نہ رود تا بہ لب گور کے مصداق اسرائیل بہت جلد اس اتحاد سے رسی تڑا کر واپس اپنی جارحانہ اور سرکش سیاست کے برگد تلے جا بیٹھے گا۔ یروشلم پوسٹ کے تجزیہ نگار Yakov Katz نے اٹھارہ اپریل کے بلاگ میں لکھا ہے کہ بنجامن نتن یاہو نے صدر بائیڈن سے ایک بڑی شرط منوا کر ایران پر خفیف حملے کی حامی بھری تھی اور وہ شرط یہ ہے کہ اسرائیل‘  غزہ کے جنوب میں مصر کی سرحد کے قریب واقع رفاح کے شہر پر حملے میں امریکی مداخلت برداشت نہیں کریگا۔ اس بلاگ کے مطابق نتن یاہو نے بائیڈن کو یقین دلایا ہے کہ وہ غزہ میں امدادی سامان لیجانے والی کسی مغربی تنظیم کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔ اس بریکنگ نیوز کی اگلے چند دنوں میں تصدیق ہو جائیگی۔ مشرق وسطیٰ سے کیونکہ دنیا بھر کے مفادات جڑے ہوئے ہیں اس لئے نظر یہی آ رہا ہے کہ اسرائیل کو اب عالمی امن کو تباہ کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جائیگی۔