ٹرمپ پر حملہ اور سوشل میڈیا

 مغربی معاشرے ایک طرف تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان میں انتہا پسند رحجانات بھی برق رفتاری سے پھیل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا اس منفی طرز فکر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ان ضرر رساں سماجی رویوں کا پھیلاؤ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد۔ اس شتر بے مہار کو قابو کرنے کے لئے بیشتر ممالک میں قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں بیسیوں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے تحقیق کر رہے ہیں کہ فیک نیوز اور ناقص معلومات پر مبنی اطلاعات کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کیسے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں صارفین کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں‘ جس نئے ٹرینڈ کو جتنے زیادہ ہٹس اور لائکس ملتے ہیں وہ اتنا ہی مشہور ہو جاتا ہے اور اسے اتنا ہی زیادہ بزنس بھی ملتا ہے۔ یہ سب باتیں بہت پرانی ہو چکی ہیں اب سوشل میڈیا پر تیزی کیساتھ پھیلنے والی فیک نیوز کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں ڈس انفارمیشن کتنی تیزی سے پھیلتی ہے اور کیسے چھا جاتی ہے اس کی ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب 17 جولائی کو شام چھ بج کر گیارہ منٹ پر پنسلوینیا کے شہر Butler میں ایک بیس سالہ نوجوان Thomas Mathew Crooks نے سابقہ صدر پر اس وقت قاتلانہ حملہ کیا جب وہ ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ ایک تحقیقاتی ادارے Institute For Strategic Dialogue کے مطابق پہلی گولی کے چلنے کے ٹھیک چار منٹ بعد ایکس(سابقہ ٹویٹر) کے ایک بے نام اکاؤنٹ پر یہ پوسٹ لگی کہ صدر بائیڈن کے حمایت یافتہ بائیں بازو کے انتہا پسند گینگ Antifa نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد چھ بج کر انیس منٹ پر ٹرمپ کے ایک حامی فورم Patriots.win  نے یہ لکھا
   ٰ" I guess they really do want war." اس کے چودہ منٹ بعد ایکس پر ایک دوسرے اکاؤنٹ میں بغیر کسی ثبوت کے یہ الزام لگایا گیا کہ اس حملے میں سی آئی اے ملوث تھی اور یہ ہیلری کلنٹن اور براک اوباما کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ ان افواہوں کو سوشل میڈیا پر ریسرچ کرنے والے اداروں کے مطابق چوبیس گھنٹوں میں صرف ایکس پر سو ملین سے زیادہ لوگوں نے پڑھا۔ انسٹا گرام اور ایکس پر لاکھوں لوگوں کی اس یلغار کو دیکھتے ہوئے ری پبلکن پارٹی کے لیڈر بھی اس میدان میں کود پڑے اور انہوں نے بھی دیکھتے ہی دیکھتے صدر بائیڈن اور سی آئی اے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک تھنک ٹینک Advance Democracy کی تحقیق کے مطابق چھ بج کر 47 منٹ پر جارجیا کے ری پبلکن کانگرس مین MIke Collins نے ایکس پر لکھا "Joe Biden sent the orders."اس پوسٹ کو سولہ ملین مرتبہ دیکھا گیا۔ ایکس پر جس بیان کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ نائب صدارت کے لئے منتخب کئے گئے اوہایو کے ری پبلکن سینیٹر جے ڈی وینس کا تھا۔ وینس نے لکھا تھا کہ آج کل ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جو بیانات صدر بائیڈن دے رہے ہیں وہ ہی اس قاتلانہ حملے کا اصل محرک ہیں۔ اس پوسٹ کو 17ملین مرتبہ دیکھا گیا۔ جارجیا کی شعلہ بیان ری پبلکن کانگرس وومن Marjorie Taylor Greene نے اسی رات سوا گیارہ بجے ایکس پر ڈیموکریٹک پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا " You are responsible.You tried to murder president Trump"سوشل میڈیا پر یہ ہنگامہ آرائی اس وقت ہو رہی تھی جب خفیہ ایجنسیاں تحقیقات میں مصروف تھیں۔ ایف بی آئی نے اس حملے کے کئی گھنٹے بعد اتوار کے روز یہ خبر دی کہ قاتل کا نام Thomas Mathew Crooks  تھا۔ جس سازشی تھیوری کو تجزیہ نگاروں کے مطابق حملے کے بعد پہلے چوبیس گھنٹوں میں سب سے زیادہ پڑھا گیا وہ یہ تھی کہ یہ حملہ صدر بائیڈن نے کرایا ہے۔ اس ٹرینڈ نے اتنی جلدی ایک بیانیے کی صورت اختیا ر کر لی کہ اب اسے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے ذہن سے نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان کے لئے صدر بائیڈن کا اصلی مجرم ہونا ایک ناقابل تردید حقیقت‘ ایک سچ اور حرف آخر بن چکا ہے۔ صدر بائیڈن کے خلاف اس بیانیے کو اس لئے بھی اتنا جلدی قبول کر لیا گیا کہ سابقہ صدر پر کئی مقدمات بنے ہوئے ہیں اور وہ ایک طویل عرصے سے الزام لگا رہے ہیں کہ صدر بائیڈن کی زیر نگرانی چلنے والی ڈیپ سٹیٹ ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ایکس‘ انسٹا گرام اور دوسرے پلیٹ فارمز پر ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز کی یہ یلغار صرف اس لئے نہیں کی جاتی کہ سوشل میڈیا کے ان جنگجوؤں کو ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت لگاؤ ہے‘ وہ بہت محب الوطن ہیں اور ملک وقوم کے غم میں نڈھال ہو رہے ہیں۔ اس ہنگامہ آرائی کا اصل مقصد لوگوں کو بیوقوف بنا کر مال سمیٹنا ہوتا ہے۔ایک اخبار کی خبر کے مطابق پیر کے دن Tik Tok اور Truth Social جو ڈونلڈ ٹرمپ کاذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے‘ پر ایسی ٹی شرٹس اور Hats بک رہے تھے جن پرسابقہ صدر کی وہ تصویر تھی جس میں ان کا چہرہ خون آلود ہے اور وہ بھنچی ہوئی مٹھی کو فضا میں لہرا رہے ہیں، اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا۔ NOT TODAY DEEP STATE اانٹر نیٹ پر بکنے والی ان اشیاء میں سے ہر ایک کی قیمت 25 ڈالر تھی اور یہ دھڑا دھڑ بک رہی تھیں۔