ان دونوں کی دوستی لا زوال تو نہ تھی مگر اس کے اتنے نا پائیدار ہونے کا اندازہ بھی کسی کو نہ تھا۔ ان کے دوست اور دشمن جانتے تھے کہ دونوں کے اپنے اپنے ارادے‘ عزائم اور امنگیں ہیں اور دونوں کا یہ خیال ہے کہ وہ مل جل کر اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں تین سو ملین ڈالر لگائے۔ اس سخاوت کے بدلے ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے فوراً بعدایک نیا ریاستی ادارہ بنا کر مسک کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ اس ادارے کو DOGE یعنی Department Of Government Effeciency کا نام دیا گیا۔ اس کا کام لاکھوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور حکومتی اخراجات میں کمی تھا۔ ایلون مسک نے یہ ذمہ داری سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ وہ چھ ماہ کے قلیل عرصے میں ایک کھرب ڈالر کی بچت کر کے دکھائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے ذہین اور تیزو طرار نوجوانوں کی ایک ٹیم بنائی اور اسے وسیع اختیارات دے کر سرکاری اداروں کی تطہیر کا کام سونپ دیا۔ میڈیا نے شور مچایا کہ یہ سب کچھ خلاف قانون ہے مگر مسک کو ٹرمپ کی حمایت حاصل تھی اس لئے اس کی ٹیم نے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں سینئر سرکاری افسروں کو معزول کر کے واشنگٹن میں کھلبلی مچا دی۔ دائیں بازو کے میڈیا نے اسے ٹرمپ کی بے مثال کامیابی کا نام دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو امریکی عوام کی اکثریت نے اس لئے ووٹ دئیے تھے کہ وہ ڈیپ سٹیٹ کا خاتمہ کرے گا اور اب ایلون مسک نے ہتھوڑا اٹھا کر یہ کام شروع کر دیا ہے۔ ان دنوں ان دونوں کی دوستی عروج پر تھی۔ ایک ماہ پہلے کی بات ہے کہ وہ باہمی ستائش کی برکھا میں بھیگ رہے تھے۔ دونوں اپنے اپنے دشمنوں کو رگید کر کامیابیاں سمیٹ رہے تھے۔ عدالتیں متاثرین کو انصاف دینے کی کوشش کر رہی تھیں مگر ٹرمپ اور ایلون کی دوستی کا گھوڑا بگھٹٹ بھاگ رہا تھا۔ کل کلاں کے ہزاروں جغادری بیو روکریٹ اپنا سامان سمیٹ کر جا چکے تھے۔
ٹرمپ اور ایلون کے گہرے تعلق کی بنیاد اگر چہ کہ ذاتی مفادات کا تحفظ تھا مگر ان کا کہنا یہ تھا کہ امریکی عوام ریاستی اداروں کے تسلط‘ اشرافیہ کے کنٹرول اور لبرل کلچر کے غلبے سے نجات چاہتے ہیں اور ہم اس عوامی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ اس اندھا دھند کاروائی میں کئی ایسے اداروں کو بھی لپیٹ دیا گیا جو لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کر رہے تھے۔میڈیا کے مطابق ملک بھر میں نیست و نابود کئے جانے والے دفاتراور ایجنسیوں کی تعداد 41 ہے ان میں ہیلتھ سرو س اور انصاف مہیا کرنے والے‘ ماحولیا ت اور جنگلا ت کا تحفظ کرنے والے‘ جانوروں کی فلاح و بہبود اورجوہری توانائی کو فروغ دینے والے دفاترشامل ہیں۔ ڈیپ سٹیٹ کے انہدام کی اس کاروائی کی لپیٹ میں آنے والا سب سے بڑا ادارہ US AID (United States Agency for International Development,)ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں صحت عامہ کا تحفظ‘ قدرتی آفات کا مقابلہ‘ پسماندہ ممالک کی اقتصادی امداد‘ جمہوری اقدار کا فروغ اور ماحولیاتی انحطاط سے بچاؤ کی تدابیرمیں تعاون فراہم کرتا تھا۔ اس کی بندش کے بعد کئی افریقی ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ خوراک اور ادویات نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ اور مسک کے نظریے کے مطابق دنیا امریکہ کی مہربانیوں اور شفقتوں کا ناجا ئز فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ایلون یمسک Tesla جیسی الیکٹرک کاریں بنانے والی منافع بخش کمپنی اور زمین سے مریخ کا سفر کرنے والے Space X ادارے کا چیف ایگزیکٹیو ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زمین انسان کا ماضی اور مریخ اس کا مستقبل ہے۔ وہ طبقہ امراء کو بہت جلد مریخ منتقل کرنے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔ لاکھوں لوگ مسک کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں۔ اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس(ٹویٹر) پر اس کے مداحوں کی تعداد 220 ملین ہے۔ اس کی دولت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کے نامی گرامی دشمن بھی اس سے براہ راست تصادم سے گریز کرتے ہیں مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔ آج کل چشم فلک ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک میں ایسی لفظی جنگ کا تماشہ کر رہی ہے جو بے قابو ہو کر امریکی سیاست کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ چند روز پہلے کے دوست اب تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب ایلون مسک نے اپنے دوست Jared Isaacman کو (National Aeronautics And Space Administration)NASA کا سربراہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ مسک کے مخالفین نے ٹرمپ کو بتایا کہ یہ شخص ڈیموکریٹک پارٹی کو چندے دیتا رہا ہے۔ ٹرمپ نے جب Isaacmanکی مخالفت کی تو مسک برہم ہو گیا۔ اس تنازعے کے علاوہ مسک کئی دنوں سے حال ہی میں ایوان زیریں میں منظور کئے جانے والے بل کی سخت مخالفت کر رہا تھا۔ مسک با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ یہ بل امریکہ کے قرضوں اور بجٹ کے خسارے میں کھربوں ڈالرز کے اضا فے کا باعث بنے گا۔ یہ دونوں تنازعے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئے اور نرگسیت کے مارے ہوئے دو ارب پتی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے تحت الثریٰ میں اتر گئے۔ مسک نے ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ کر دیا اورصدر امریکہ نے اس کے اربوں ڈالر کے سرکاری ٹھیکے منسوخ کرنے کی دہمکی دے دی۔ میڈیا میں غلغلہ بلند ہوا کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر حکومتی اداروں کو اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ ایلون مسک نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا۔ اب ہاؤس اور سینٹ میں ری پبلکن پارٹی کے لیڈرز پریشان ہیں کہ اگر مسک نے تیسری جماعت بنا دی تو اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ان کی جماعت دونوں ایوانوں میں اکثریت کھو دے گی۔ اس بحران سے بچنے کے لئے دونوں کے مشترکہ دوست بیچ بچاؤ کی کوشش کر رہے ہیں مگرنظر یہی آ رہا ہے کہ پانی سر سے گذر چکا ہے۔