سیاحت کا خمیازہ

انڈونیشیا کے شہر بالی کے میں ایک سیاح جوڑے نے مندر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر تصویر بنائی جس سے مقامی برادری کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور اِس عمل کو مندر کی بے حرمتی قرار دیا گیا۔ انڈونیشیا سے ہزاروں میل دور گلگت بلتستان کے شہر ہنزہ میں ایک سیاح نے چیری کے درخت کی پوری شاخ توڑی اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اُس نے شاخ پر لگے ہوئے چیری نامی پھل کھاتے ہوئے لذت اور ذائقے کی تعریف کی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونیو الی اِس ویڈیو کے بعد ہنزہ کے مقامی لوگوں نے احتجاج کیا اور اپنے قدرتی ورثے کے تئیں احترام سے بے خبر سیاحوں پر تنقید کی۔ ان چند اور ایسے لاتعداد واقعات ہیں جو بالخصوص اُن سیاحتی مقامات پر پیش آتے رہتے ہیں‘ جہاں سیاحوں کی تعداد زیادہ ہو۔ سیاحت اور مقامی ثقافت کا احترام اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور اِس بات پر غوروخوض ہو رہا ہے کہ اِس طرح کے واقعات کی روک تھام کس طرح کی جائے کیونکہ سیاحتی ترقی سے ثقافتی شناخت ختم ہو رہی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔سیاحوں کی حد سے زیادہ آمدورفت بھی نقصان کا باعث ہو سکتی ہے جیسا کہ وینس شہر میں دیکھا جا رہا ہے کہ وہاں کے مقامی افراد بحری جہازوں (کروز) کے ذریعے آنے والے سیاحوں کی آمد و رفت پر معترض ہیں کیونکہ اِس سے اُن کے تیرتے ہوئے شہر کی بنیادوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیاح کوڑا کرکٹ (کچرا) لاپرواہی سے یہاں وہاں پھینکتے ہیں جس سے سیاحتی مقامات کی صفائی اور اُن کی تاریخی شان و شوکت متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح بارسلونا میں‘ سیاحوں کی وجہ سے شور‘ بھیڑ بھاڑ اور کرایوں میں اضافے کی صورت بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متعلق شکایات سننے میں آ رہی ہیں‘ جنہیں مقامی افراد بے لگام سیاحت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور بہت سے مقامی افراد نے اِن وجوہات کی بنا پرمجبوراً نقل مکانی بھی کی ہے۔ ایمسٹرڈیم میں شہری سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ (نظام) بھی سیاحوں کے ہجوم کی وجہ سے متاثر ہے اور اِس کا خمیازہ عوامی نقل و حمل کے نظام میں خلل کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں کو دیکھا جائے تو یہ بھی ’سیاحت کا خمیازہ‘ بھگت رہے ہیں۔ جھیل سیف الملوک‘ جو کبھی اچھوتا مقام ہوا کرتا تھا لیکن اب منصوبہ بندی کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے تقریباً تباہ ہو چکی ہے اور اپنے قدرتی حسن کو کھو چکی ہے۔ وادی نلتر کی سترنگی‘ نیلی اور سبز جھیلیں سحر انگیز رنگوں کی وجہ سے مشہور تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کی دلکش آرنگ کیل کی دلکشی بھی کم ہوئی ہے۔ اِسی طرح وادی کمراٹ جو کبھی انتہائی پرسکون ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ زوال کے دہانے پر ہے کیونکہ سیاحوں کے مسلسل آنے اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صفائی ستھرائی اور قدرتی اثاثوں کی حفاظت نہیں ہو سکی ہے۔ایک ایسی سیاحت خطرناک قرار دی جاتی ہے جس کے اثرات ماحولیاتی اور بنیادی ڈھانچے کے دائروں سے نکل کر سماجی و ثقافتی دائرے تک پہنچ جائیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ واکھی اور بلتی برادریوں کو شکایت ہے کہ سیاحوں کی غیر منظم آمد کی وجہ سے اُن کی ثقافت متاثر ہوئی ہے۔ کیلاش برادری کو اپنی قدیم روایات کے ساتھ معدوم ہونے کے شدید خطرات کا سامنا ہے کیونکہ سیاحوں کی آمد ان کے ثقافتی تانے بانے میں خلل ڈال رہی ہے۔ مزید برآں‘ مقامی تاریخ اور طرز زندگی سے بے خبر سیاحوں کی طرف سے ثقافتی استحصال ایسی برادریوں کے لئے مستقل پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں تقریباً ہر سیاحتی مقام پر آنے والوں کا استقبال سب سے پہلے اس مقام کی شان و شوکت نہیں بلکہ کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلوں‘ چپس کے ریپرز‘ سگریٹ کے ضائع شدہ پیکٹس اور ہر جگہ پھیلے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کرتے ہیں جو وہاں کی جنگلی حیات کے لئے بھی خطرہ ہے اور اِن علاقوں میں انفراسٹرکچر بھی بڑی تعداد میں سیاحوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا‘ جس کے نتیجے میں سڑکیں اور فضلے کا انتظام یا صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات دباؤ کا شکار ہیں۔ممالک حد سے زیادہ سیاحت (اوور ٹورازم) کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے مختلف حکمت ِعملی اپنا رہے ہیں جیسا کہ پیرو میں‘ سیاحوں کی تعداد محدود کرنے کے لئے ماچو پیچو کے قدیم کھنڈرات میں داخلے کا وقت مقرر کرتے ہوئے وقت کے لحاظ سے ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ اِسی طرح آئس لینڈ سیاحت کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لئے آف سیزن سفر اور ماحول دوست طریقوں کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان کو ان عالمی حکمت عملیوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے‘ جس میں سیاحوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے سے لے کر ذمہ دارانہ سیاحت کو فروغ دینے اور آف سیزن سفر کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں‘ سیاحتی مقامات پر بنیادی و خصوصی سہولیات کی فراہمی اور اِس کا معیار برقرار رکھنے کے لئے ”سیاحتی ٹیکس“ بھی لگایا جانا چاہئے جس سے حاصل ہونے والی آمدنی اِنہی علاقوں کی تعمیروترقی اور سہولیات کے معیار کو بہتر بنانے اور جنگلی حیات کی افزائش و تحفظ پر خرچ کی جا سکتی ہے یقیناً ہزاروں روپے خرچ کرنے والے سیاحوں کو ان مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اضافی چند سو ادا کرنے پر اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیاحت کی منصوبہ بندی اور ترقی کے عمل میں مقامی برادریوں کو شامل ہونا چاہئے۔ جس سے سیاحت کے غیرروایتی اور پائیدار طریقوں کو فروغ ملے۔ ایک طرف جہاں سیاحوں کے لئے سہولیات اہم ہوتی ہیں وہیں مقامی افراد کے سماجی و ثقافتی اور کاروباری مفادات کا تحفظ بھی ہونا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ سیاحت سے متعلق تعلیمی پروگرامات اور آگاہی مہمات یقینی بنائی جائیں تاکہ سیاح کسی بھی علاقے کے قدرتی حسن اور خوبصورتی کے تحفظ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور وہ جہاں کہیں بھی جائیں وہاں کے مقامی ثقافتی ورثے کا خود بھی احترام کریں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین اپنے عمل سے کریں۔ پاکستان اپنے ماحولیاتی‘ ثقافتی اور سیاحتی خزانے کی کماحقہ حفاظت کر سکتا ہے اور اِس بات کو یقینی بھی بنایا جا سکتا ہے کہ سیاحت قومی و مقامی معیشت اور بالخصوص مقامی افراد  کی  فلاح و بہبود میں کلیدی و مثبت کردار ادا کرے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر امیر عبداللہ خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)