انتخابات کی تاریخ کامعمہ

یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے سیاسی شاہراہ پر ہم پیچھے کی طرف جانے لگے ہیں‘ حالانکہ اس شاہراہ پر ہم نے گذشتہ چارساڑھے چار عشرے کے دوران کافی مسافت طے کی ہوئی ہے‘بدقسمتی سے ہماری سیاسی و پارلیمانی تاریخ کچھ زیادہ درخشاں نہیں ہے پہلے تو عام انتخابات سے قوم کو محروم رکھا جاتارہا آزادی کے 23سال بعد کہیں جاکر پہلی مرتبہ ملک میں حقیقی بنیادوں پر عام انتخابات منعقد ہوئے مگر یہ عام انتخابات آدھا ملک ہی کھاگئے پھر 1977میں دوسرے عام انتخابات ہوئے تویہ بھی قوم پر کافی بھاری رہے اور جمہوریت ہی کابوریا بستر گول کردیاگیاجس کے بعد تیسرے انتخابات کے لئے قوم کو ایک بارپھر گیارہ برس انتظارکرنا پڑا وہ بھی اگر جنرل ضیاء الحق زندہ رہتے تو شاید مزید انتظار کرناپڑتا ان کے بعد یہ انتخابات کاسلسلہ شروع ہوا اسی دوران پہلے تو نگران حکومتوں کاسلسلہ شروع ہوا اورپھر ایک اور تبدیلی لاتے ہوئے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی روز منعقد کرائے جانے لگے اس سے قبل قومی اسمبلی کے الیکشن پہلے ہوتے اوراس کے دوروز بعد صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوا کرتے تھے جس پر یہ اعتراض آنے لگا کہ دوروز پہلے جو جماعت قومی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو لامحالہ اس کے اثرات پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر مرتب ہوتے ہیں لہٰذا اس صورت حال سے بچنے کیلئے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی روز منعقد کرانے کاسلسلہ شروع کردیاگیا یہ غالباً 1997ء کے الیکشن کی بات ہے ان انتخابات میں نہ صر ف پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی روز منعقد ہوئے بلکہ پہلی بار قبائلی اضلا ع میں بھی عام لوگوں کو ووٹ کے استعمال کاحق ملا‘اٹھارہویں ترمیم میں تو پھرنگران حکومت کے قیام کیلئے طریقہ کار بھی طے کرلیاگیاجس پر عملدر آمدبھی ہوتاچلا آرہاہے مگر گذشتہ دنوں وفاقی و صوبائی وزرائے قانون کے ایک اجلاس کی خبر نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا اس اجلاس میں بہت غور وخوض کے بعد یہ سفارش سامنے آئی کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشن ایک ہی روز منعقد ہونے چاہئیں جب بعض نجی نیوز چینلوں پر اس کی بریکنگ نیوز چلنی شروع ہوئی تو اپنے الیکٹرانک میڈیا پر بھی ترس آنے لگاکہ محض اس روز صدر عارف علوی کے خط کو کاؤنٹر کرنے کیلئے مذکورہ اجلاس کی سفارشات کو اٹھایا جانے لگا اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نگران حکومتیں اورالیکشن کمیشن فی الوقت سوائے الیکشن کے باقی سب کام کرنے کیلئے نہ صرف تیار ہیں بلکہ مصروف عمل بھی ہیں‘چنانچہ جونہی الیکشن کی تاریخ کے حوالہ سے کوئی بات آتی ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ کو دبائے رکھاجائے‘بدقسمتی سے سابق پی ڈی ایم حکومت جاتے جاتے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے گئی حالانکہ قانونی ماہرین کے مطابق دونگران وزرائے اعلیٰ کو یہ اختیار نہیں تھاکہ وہ ا س قدر اہم نوعیت کے فیصلے میں حصہ لے سکی‘ اس سے قبل جب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو پہلی بار آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے نوے روز میں الیکشن نہیں کرائے گئے اس حقیقت کی طرف کسی بھی سیاسی جماعت کادھیان نہیں گیاکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوچکا نہ تو پی ٹی آئی نے اسمبلیاں تحلیل کراتے وقت اس کے نتائج پر غور کرنے کی زحمت گوارہ کی اور نہ ہی پی ڈی ایم اورحلیف جماعتوں نے پھرنوے روز کی آئینی مدت کے تقدس کااحساس کیایوں سیاستدانوں کی باہمی لڑائی نے آئین کو بازیچہ اطفا ل بناکررکھ دیا اور خود اداروں کو بھی آزمائش سے دوچار کرڈالا حالانکہ عدالت عظمیٰ اس کیس کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ یہ کہہ کر بال سیاسی قوتوں کے کورٹ میں پھینکتی رہی کہ الیکشن کی تاریخ کامعاملہ سیاسی قائدین آپس میں مل بیٹھ کر طے کرلیں اور اس میں باقی اداروں کو نہ گھسیٹیں مگر سیاسی قائدین اختلافات میں اس حدتک آگے جاچکے تھے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا گوارہ ہی نہیں تھا‘ سیاسی قائدین نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ اسی قسم کے رویہ کی وجہ سے 1977ء میں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتری کہ پھر چڑھتے چڑھتے گیارہ برس لگ گئے‘ جنرل ضیا ء نے جس طر ح الیکشن کیلئے قوم کو ترسائے رکھااوراب حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بعد اب پی پی پی اوردیگر جماعتیں بھی الیکشن کے التواء کی مخالفت کرنے لگی ہیں بہتر ہوتاکہ یہ معاملات حکومت میں بیٹھے بیٹھے ہی حل کرلئے جاتے‘اگلے چندروز میں اس بات کے امکانات ہیں کہ پی ڈی ایم اور اس کی حلیف جماعتیں اس التواء کی ذمہ داری کھل کر ایک دوسرے پر ڈالنے لگیں گی۔