جامعات پنشن:بے یقینی برقرار

جامعات پنشن:بے یقینی برقرار

کہتے ہیں کہ تنخواہ اور پنشن قانونی حق ہے‘ اگر ایسا ہی ہے تو پھر جو لوگ اس حق سے محروم ہوں وہ قانون کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ عرصہ ہوا کہ خیبرپختونخوا کی قدرے پرانی جامعات بالخصوص جامعہ پشاور اور پشاوریونیورسٹی کیمپس کی دو دوسری یونیورسٹیوں یعنی زرعی اور انجینئرنگ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں یکساں طور پر بے یقینی‘ بے چینی اور اضطراب کا شکار نظر آرہے ہیں‘ اب تو حاضر سروس جب تالہ بندی کرکے سڑک پر بیٹھ جاتے ہیں تو ریٹائرڈ ملازمین بھی نعروں اور تقاریر میں اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں ابھی چند مہینوں سے اسلامیہ کالج کو چھوڑ کر باقیماندہ تین پرانی یونیورسٹیوں کے سبکدوشان قدرے متحرک اور پرجوش بھی ہوگئے ہیں ‘صوبائی سطح کی رابطہ کونسل بھی قائم کردی گئی ہے ان میں وہ لوگ زیادہ بے چین اور مضطرب نظر آرہے ہیں جو نہایت بہتر پوزیشن میں عرصہ30سال یا اس سے بھی زیادہ وقت حاضر سروس رہے مگر کیاکہیں کہ پنشن کے مسئلے سے غافل رہے بالکل ایسی ہی حالت موجودہ حاضر سروس ملازمین کی بھی ہے ان سے بارہا کہا گیا کہ جس طرح کل کے حاضر سروس آج پنشن کیلئے دربدر ہیں آنیوالے کل کو موجودہ حاضر سروس کی حالت بھی اس سے مختلف
 نہیں ہوگی ریٹائرڈ ملازمین میں سابق وائس چانسلر‘ ڈینز اور گریڈ20اور21 کے افسران زیادہ ناراض اور قدرے جذباتی واقع ہو رہے ہیں ان میں وہ لوگ زیادہ قابل توجہ ہیں جو خیبرپختونخوا کے ہر ضلع اور تحصیل میں یونیورسٹی‘ کیمپس یا بہ الفاظ دیگر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑا کرنے میں کلیدی کردار کے حامل رہے ہیں‘ یہ بات اپنی جگہ کہ پنشن کے مسئلے سے غافل رہے بلکہ کیا بہتر ہوتا کہ صوبے کی نئی یونیورسٹیاں قدیم درسگاہ یعنی جامعہ پشاور کے کیمپسز ہوتے تو آج یہ حالت رونما نہ ہوتی‘ پشاور یونیورسٹی عالمی درجہ بندی میں صف اول کی یونیورسٹی بننے کیساتھ ساتھ تنخواہوںاور پنشن کی ادائیگی کیلئے مالیاتی اداروں جبکہ اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی گریجویٹی اور پنشن اضافے کے کروڑوں روپے کی مقروض نہ ہوتی ‘حاضر سروس ملازمین کی بے چینی تو ہر مہینے کی یکم تاریخ قریب آتے آتے بتدریج بڑھ جاتی ہے جبکہ ریٹائرڈ تو عرصہ ہوا کہ مسلسل بے چین رہتے ہیں جس طرح آج کے ریٹائرڈ ملازمین نے کل اپنی ملازمت کے دوران پنشن کے مسئلے کیلئے کچھ نہیں کیا بعینہ موجودہ حاضر سروس بھی بے فکر اور لاتعلق نظر آرہے ہیں کیا یہ لوگ آنیوالے کل میں اپنے ہی مسئلے کے حل کیلئے آج کچھ بھی نہیں کر سکتے؟ کیا پنشن انڈومنٹ فنڈ کا قیام ناممکن ہے؟ پشاور یونیورسٹی کی ماہانہ پنشن10 کروڑ سے بڑھ گئی ہے ‘ان میں اسلامیہ کالج کے دو سوسے زائد اس وقت کے ملازمین بھی شامل ہیں ‘جو سال2008ءسے قبل جامعہ کے کالج سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں ‘یونیورسٹی نے گزشتہ سال یہ کہتے ہوئے اسلامیہ کالج کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن تین مہینے تک روک لی لیکن متاثرین نے جب عدالت سے رجوع کرلیا تو فیصلہ انکے حق میں آیا یہ رقم اس سے قبل ماہانہ ایک کروڑ سے زائد تھی مگر گزشتہ ایک سال کے دوران پنشن میں32.50 فیصد اضافہ ملا کر اب دو کروڑ کے قریب پہنچ گئی‘ یہانپر یہ تذکرہ بھی غیر ضروری نہیں ہوگا کہ جامعہ کے بعض وہ ملازمین جنہوں نے پنشن اور گریجویٹی کے بقایا جات کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا انہیں سب کچھ مل گیا اب سوال یہ ہے کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین جب سڑک پر بیٹھتے ہیں تو اس کی بجائے عدالت سے رجوع کرنے میں کونسی رکاوٹ حائل ہے؟۔