تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ لگ بھگ 24کروڑ والی آبادی کے ملک میں جب تعلیمی بجٹ1.5 فیصد ہو تو تعلیم کی حالت کیا اور کیسی ہوگی؟ نہ جانے صاحب اقتدار طبقے کو کیا سوجھی  کہ اچھے بھلے1974ء کے ایکٹ میں ترامیم کرکے ترمیمی ایکٹ2012ء لے آئے یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ہم لوگ شمالی مغربی سرحدی صوبے کے باسی تھے یہ تو بھلا ہو پشاور یونیورسٹی اساتذہ بالخصوص فرینڈز گروپ کا کہ جنہوں نے ایکٹ ترامیم یعنی ترامیم کے ذریعے جامعات کو اپاہج بنانے کیخلاف آواز اٹھائی اور یہ موجودہ سہ بارگی والی پارٹی کی حکومت سے قبل اس وقت کی دو قوم پرست پارٹیوں کی مخلوط حکومت کو ترامیم قدرے واپس لینے یا کم از کم ترامیم میں ترامیم لانے پر مجبور کر دیا مگر پھر کیا ہوا؟ پوچھئے مت کہ2012ء کے ایکٹ میں ترامیم کرکے یونیورسٹیوں کو محض نام کی حد تک خود مختار بنایادیاگیا لیکن بات یہی پے ختم نہ ہوئی بلکہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے غالباً اس وقت تک کہ جامعات بھی ہائی سکینڈری سکول یا زیادہ سے زیادہ کالج کے ہم پلہ ہو جائیگا درحقیقت اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ جو لوگ یکے بعد دیگرے طبقاتی طور پر اقتدار میں آتے ہیں دراصل تعلیم ان کامسئلہ  ہی نہیں ورنہ پاکستان جیسا ملک پورے خطے میں تعلیم میں کیونکر سب سے پیچھے رہ جاتا ان سطور کے لکھنے کے وقت جامعہ زرعیہ گزشتہ ایک مہینے سے بند تھی پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ جامعہ کی بحرانی حالت اور عرصہ آٹھ سال سے ترقیوں کے قانونی حق سے محرومی کو لیکر بھرپور احتجاج کیلئے ان ڈور تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی نیند یں صوبائی حکومت کے انکار اور وفاقی گرانٹ میں تاخیر نے اڑائی تھیں ایسے میں یہ کہنا کہ تعلیم حکومتی
 ترجیحات میں شامل ہے اور یہ کہ جامعات”اڑان پاکستان“ میں کلیدی ادا کریں گی محض ایک خواب و خیال ثابت ہوگا اور کچھ نہیں پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر تعلیم کے کئی نصاب اور کئی نظام رائج ہیں جہاں پر تعلیمی ادارے یعنی یونیورسٹیاں اپنی مرضی سے ہفتے میں دو چھٹیاں کرتی ہیں جہاں پر عیدین کی تعطیلات میں جامعات کی خود مختاری ابھی تک برقرار ہے جہاں پر پرانی یونیورسٹیاں اور ان میں سب سے زیادہ صوبے بلکہ ملک کی قدیم یونیورسٹی اپنے ریٹائر ملازمین کے بقایا جات کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں جہاں پر بجلی کا ماہانہ کروڑوں روپے بل اداکیا جاتا ہے مگر سولرائزیشن کی جانب جو رفتار نظرآرہی ہے وہ کچھوے کی مانند ہے جہاں پر ماہانہ کم از کم 10کروڑ روپے پنشن کی ادائیگی ناممکن ہوگئی ہے مگر یونیورسٹی ملازمین کے ذہن میں اپنی مدد آپ کا  فارمولا بیٹھتا ہی نہیں بلکہ اس پر بھی ریٹائرڈ اور حاضر سروس کی رائے بھی منقسم ہے مطلب صوبائی حکومت نے کچھ عرصہ قبل ارادہ مصمم سے یا یونیورسٹی ملازمین کے ٹیسٹ کے طورپر پنشن کو صوبائی بجٹ میں شامل کرنے کی جو بات کہی تھی یونیورسٹی نے لبیک کہنے کی بجائے الگ الگ مؤقف اختیار کرتے ہوئے ریٹائرڈ کا بیانیہ تو پنشن کا یونیورسٹی کے پاس رہنے کے حق میں آیا جبکہ حاضر سروس نے حکومتی پیشکش کا خیر مقدم کیا لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا کیونکہ نااتفاقی کا نتیجہ اور کیا ہو سکتا ہے؟  اب ایسے میں کہ بجٹ کی تیاریاں شروع ہیں پشاور یونیورسٹی کے ملازمین بالخصوص اساتذہ ایک بار پھر صوبائی حکومت سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ صوبے کی کم از کم تین درجن یونیورسٹیوں کیلئے بجٹ میں 50 ارب روپے مختص کئے جائیں اب دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ کی طرح اس بار بھی یہ مطالبہ ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے یا تعلیم کو سنبھالنے اور چلانے کی آئینی ذمہ داری قبول کی جائے گی؟ ماضی قریب کے حالات و واقعات اور مشاہدات سے تو یوں لگنا ہے کہ جامعہ کے اساتذہ کے مطالبے پر حکومتی ردعمل پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔