اہم امور پر ایک طاہرانہ  نظر 

پنجاب کی وزیر اعلی نے اگلے روز ڈیٹا سائنس data science کا جو پروگرام شروع کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اس کی مدد   سے کسی بھی  ترقیاتی  پراجیکٹ میں کسی قسم کی دھاندلی کرنا ممکن نہیں ہوگی اور اس کے ثمرات صرف حقدار افراد کو ہی مل سکیں گے‘ اگر تمام  ملک میں قومی سطح پر ڈیٹا سائنس کو فروغ دیا جائے تو یہ عام آدمی کے واسطے بڑا سودمند ثابت ہوگا۔ وقت آ  گیا ہے کہ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی سائنسی ایجادات کا دائرہ ملک میں پھیلا کر  اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں‘آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اتنی زیادہ ایڈوانس ہو گئی ہے کہ ہر  گھر میں ٹی وی سیٹ بھی ہے اور اس کے ہاتھ میں موبائل بھی‘ لہٰذا کسی بھی عوامی لیڈر کی عام آدمی تک رسائی ناممکن نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا حقیقت کے باوجود سیاسی پارٹیاں کیوں پھر جلسوں جلوسوں کے انعقاد پر مصر ہوتی ہیں‘جن سے ایک طرف  ان کی جیبوں پر اگر اثر پڑتا ہے تو دوسری طرف ان عوامی اجتماعات میں امن عامہ کو قائم رکھنے کے واسطے قومی خزانے سے ایک خطیر رقم بھی خرچ ہوتی  رہتی ہے‘اس کے علاہ ہر وقت کئی ٹیلی ویژن چینلز بھی ہر مسئلے پر عوام کو ان کے خیالات سے آ گاہ کرتے نہیں تھکتے۔اگر کسی معاملے میں انہوں نے ایک دوسرے کے لتے لینے ہیں یا اس پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنی ہے تو وہ الیکٹرانک میڈیا پر آ کر ایسا کیوں نہیں کرتے اور کیوں روڈ بند کر کے ٹریفک جام کر کے خلقت خدا کے معمولات زندگی میں مخل ہو کر ان کی بد دعا ئیں لیتے ہیں وہ یہ بھی تو کر سکتے ہیں کہ آپس میں گفت و شنید کر کے ہر شہر اور قصبے میں کسی پارک یا گراؤنڈ  میں اپنے سیاسی اجتماعات کے لئے کوئی جگہ مخصوص کر لیں کہ جہاں جب ان کا جی چاہے وہ وہاں جمع ہو کر جس بھی مسئلے پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہوں نکال لیں۔ پرانے وقتوں کے وہ سیاست دان  ان سے زیادہ عوام دوست تھے جو اپنے جلسے عشاء کی نماز کے بعد شہر کے اس مرکزی مقام پر منعقد کیا کرتے تھے کہ جس سے خلقت خدا کے روزمرہ کے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر چوک یادگار پشاور شہر‘چوک فوارہ پشاور صدر‘ لیاقت باغ پنڈی‘منٹو پارک اور موچی گیٹ لاہور وغیرہ وغیرہ۔  یہ بات تو اس ملک میں  ایک عرصے سے طے ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم دوران سروس سیاسی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا نہ کوئی سیاسی بیان دے سکتا ہے ہاں البتہ اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد یہ پابندی اس پر عائد نہیں ہوتی لہٰذا اگر کوئی سرکاری ملازم ڈیجیٹل میڈیا کا یا کسی اور ذریعے سے کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہے تواس کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے‘اس تناظر میں اگر قومی اسمبلی نے اپنے ملازمین کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیا ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔