چوک یادگار سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی طرف ایک پتلی سی سڑک جاتی تھی جو اب بھی موجود ہے جس کا دوسرا کونہ آسامائی گیٹ کہلاتا ہے کہ جہاں پولیس کی ایک چوکی موجود ہے اس سڑک کے دونوں اطراف میں صرافوں کی دکانیں ہیں جن کو مقامی ہندکو زبان میں سنیارے کہا جاتا ہے ہر دکان کے آ گے ایک بلیک بورڈ بھی پڑا ہوتا ہے جس پر ہر صبح سفید چاک سے سنیارے فی تولہ سونے کا نرخ لکھ دیتے ہیں ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں کہ جب فی تولہ سونے کا بھاؤ 103 روپے ہوتا تھا یہ 1960 کی دہائی کی بات ہے آج وہی سونا چار لاکھ روپے کے قریب فی تولہ ہو چکا ہے چوک یادگار سے چند گام کے فاصلے پر میونسپل کمیٹی کی ایک پبلک لائبریری ہوا کرتی تھی جو ایک عرصہ ہوا ختم کر دی گئی ہے صرافہ بازار میں مسجد مہابت خان موجود ہے اور اس کا وہ بلند مینار بھی ایستادہ ہے کہ جس کے بارے میں بزرگوں سے ہم نے سنا ہے کہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پشاور کے اطالوی نژاد گورنر جسے پشاوری ابو طبیلہ
کے نام سے پکارتے تھے سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کو اس مینار کے اوپر کے حصے سے دھکے دلوا کر نیچے گرا دیا کرتا تھا اور جس کی سخت سزاؤں کے طفیل پشاور ہر قسم کے سنگین جرائم سے صاف ہو گیا تھا چوک یادگار سے جو سڑک گورگٹھڑی کی طرف جاتی ہے وہ اس بازار سے گزرتی ہے کہ جسے بازار کلاں کہتے ہیں گو ہندکو میں اسے وڈا بازار کہا جاتا ہے گورگٹھڑی کے اندر اس وقت کا پشاور کا گورنر ہاؤس واقع تھا کہ جس میں ابو طبیلہ کا دفتر ہوتا تھا۔ پشاور شہر کا معروف محلہ کریم پورہ بھی بازار کلاں کے قرب میں واقع ہے پرانی
ہندوستانی فلموں کے فلم بین اداکار پریم ناتھ سے اچھی طرح واقف ہیں وہ کریم پورہ میں پیداہواتھا اسی پریم ناتھ کی ہمشیرہ مشہور فلمی ہیرو راج کپور کی بیوی تھی برصغیر کے معروف مصور اور سنگ تراش گل جی کی جائے پیدائش بھی کریم پورہ کی تھی کریم پورہ کی نکڑ پر جہاں سے چکہ گلی کا محلہ شروع ہوتا ہے وہاں برے پان والے کے نام سے مشہور ایک پان والے کی دکان تھی جس کے ہاتھ کے بنے ہوئے پان لوگ بڑے شوق سے کھاتے تھے اسی بازار میں ایک بالاخانہ ہے کہ اس بالا خانے کا مالک مچھلے وال کے نام سے مشہور تھا وہ بڑی مضبوط جسامت کا مالک تھا ہندکو زبان میں مضبوط پٹھوں کے جسم کو مچھلے بھی کہتے ہیں اس لئے اس شخص کا نام مچھلے وال یعنی مضبوط پٹھوں والاپڑ گیاجس کااصلی نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا‘ایک رات جب پولیس پارٹی نے اس وقت کے فرنگی ڈی ایس پی کی قیادت میں جب
اس بالا خانے پر چھاپہ مارا تو اس نے اپنی گرفتاری دینے کے بجائے اس فرنگی ڈی ایس پی کو اٹھا کر بالا خانے کے بالائی کمرے کی کھڑکی سے نیچے سڑک پر پھینک دیا جس سے وہ ہلاک ہو گیا مچھلے وال کو اس جرم کی پاداش میں سزا ہوئی اور بزرگوں کے مطابق اس کی موت جیل میں دوران قید ہوئی۔ اب تو نہ وہ شہر ہے اور نہ اس کاکلچر ٹھیٹھ پشاور یوں کی ایک بڑی تعداد شہر کی فصیلوں کے اندر سے نکل کر گل بہار کالونی اور حیات آ باد میں جا بسی ہے کسی دور میں پشاور کے ہر گھر میں صبح کا ناشتہ تب تک مکمل تصور نہ ہوتا کہ جب تک اس میں گلابی رنگ والی شیر چائے جسے کشمیری چائے بھی کہتے ہیں۔ شامل نہ ہوتی اور اسکے ساتھ ساتھ ملائی اور روغنی روٹی دسترخوان پر رکھی نہ جاتی اکثر پشاوری تو صبح کے ناشتے میں چائے‘ چائے کے ساتھ باقر خانی اور پھیڑیاں اور پائے جسے ہندکو میں پانچے کہا جاتا تناول کرتے اس روایتی قسم کے ناشتے کی جگہ اب تو خیر مکھن‘ جیم اور ڈبل روٹی ٹوسٹ نے لے لی ہے۔