ایک عرصے سے وطن عزیز میں ہر سال جب قومی اسمبلی یاصوبائی اسمبلیوں میں بجٹ پیش ہوتے ہیں تو اسمبلیوں میں اس قدر شوروغوغا ہوتا ہے جیسا کہ سبزی منڈی یا مچھلی بازار میں ہوتاہے‘اپوزیشن والے وزیر خزانہ کو آرام سے تقریر کرنے نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ بجٹ کی کاپیاں پھاڑ پھاڑ کر اسمبلی کے سپیکر کی میز پرپھینک دیتے ہیں‘وزیر خزانہ کو لامحالہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر بجٹ تقریر کرنا پڑتی ہے‘ہمارے اکثر سیاست دان پارلیمانی جمہوری نظام کے گن تو گاتے ہیں پر اس کے تقاضے پورے نہیں کرتے‘ اور ان کا عملی سیاست میں رویہ ڈکٹیٹرز سے کم نہیں ہوتا،اسرائیل چن چن کر ایران کے سینئر فوجی جرنیلکو نشانہ بنا رہا ہے اور موساد نے ایران کے اندر کئی میر جعفروں اور میر صادقوں کو اسرائیل کے لئے جاسوسی کرنے کے واسطے خریدا ہے بن گوریان سے لے کر آج تک اسرائیل میں کئی انتہا پسند صیہونی وزرائے اعظم گزرے ہیں پر ان سب میں نتین یاہو نے مسلمان دشمنی میں سب کا ریکارڈ توڑا ہے بالکل بھارت کے مودی کی طرح‘دونوں میں قدرے مشترک یہ پائی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ثابت ہوئے ہیں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہمارے ارباب اقتداراگر چین کی حکومتوں کے طرز عمل کو اپناتے اورہم من حیث القوم عام چینیوں کے سادگی پر مبنی رہن سہن کے طریقوں کو اپنی روزانہ کی زندگی کا معمول بناتے‘بجائے امریکی طرز زندگی اپنانے کے‘ تو آج ہمارا معاشرہ بڑی قباحتوں سے پاک ہوتا‘ امریکہ اور چین کی ہر چیز میں واضح فرق اس لئے بھی ہے کہ امریکہ بقول کسے جمعہ جمعہ آ ٹھ دن کی پیداوار ہے اسے نیشن آف نیشنز کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا کے ہر حصے سے لوگوں نے وہاں آ کر سکونت اختیار کی ہے اور ابھی امریکہ کو موجودہ شکل میں بسے ہوے چین کے مقابلے میں بہت قلیل عرصہ ہوا ہے جب کہ چین کی ہزاروں سال پر محیط اپنی ایک تاریخ ہے جس میں کنفیوشس نامی فلسفی کا فلسفہ ہر چینی کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔