اسرائیل نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمعہ کے روز علی الصبح ایران پر حملہ کیا ہے‘ تادم تحریر مہیا ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حملے میں ایران کی مسلح افواج کے سربراہ‘ پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف اور 6اہم جوہری سائنسدان بھی شہید ہو گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے چند ہی گھنٹوں میں ایران کی جانب سے 100 سے زائد ڈرون اسرائیل کی طرف آئے‘ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیلی حملوں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل سزا کیلئے تیار رہے‘ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں ایران کے سپریم لیڈر کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست نے ہماری سرزمین پر شیطانی اور خون آلود ہاتھوں سے ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے‘ دشمن نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا کر اپنی فطرت کو پہلے سے زیادہ بے نقاب کر دیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں اس کا کوئی کردار ہی نہیں اور یہ کہ امریکہ کی ترجیح خطے میں امریکی فوجیوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی ہے۔ سعودی عرب‘چین‘ برطانیہ‘ عمان سمیت متعدد ممالک اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اسرائیلی حملے ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی صریح خلاف ورزی ہیں‘ ان حملوں کے بعد تہران کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے‘ اسرائیلی حملے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہیں اور ایران کو دفاع کا حق خود اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 51 دیتا ہے‘ اب ذمہ داری عالمی برادری کی ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کا نوٹس لے اگر عالمی ادارہ ایسا مو¿ثر انداز میں نہ کر سکا تو خود اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان ثبت ہو گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بیان قابل توجہ ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل کا گھناﺅنا اقدام بین الاقوامی قانون کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ اسرائیل جب غزہ میں بے گناہ شہریوں پر بم برسائے اور ایران کے خلاف کھلی جارحیت کا مظاہرہ کرے تو ضروری ہے کہ اقوام متحدہ عالمی قوانین کی پاسداری یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے‘ ضروری یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم بھی صرف بیانات اور قراردادوں تک نہ رہے بلکہ اپنا اہم کردار نبھائے۔