سرمایہ کاری کا دائرہ؟

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے صوبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا عندیہ دیا جا رہا ہے ‘وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں انوسٹمنٹ کا عمل آسان بنانے کیلئے قوانین میں ترمیم کا حکم بھی دیا‘ اجلاس میں نجی و سرکاری شعبوں کے رہائشی منصوبوں کا جائزہ بھی لیا گیا‘ ملک کے مجموعی اقتصادی منظرنامے میں معیشت کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہے اور قرض دینے والوں کی شرائط تسلیم کرنے کا سلسلہ پوری طرح جاری ہے جن کا سارا بوجھ غریب عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے دوسری جانب خیبرپختونخوا کا جغرافیہ اور یہاں درپیش صورتحال مقامی طور پر انفرادی نوعیت کی حامل بھی ہے‘ ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کیلئے دوسرا قرضہ اٹھانا کسی بھی ریاست یا پھر اسکی کسی بھی اکائی کی درست اقتصادی حکمت عملی قرار نہیں دیا جا سکتا‘ مسئلے کا حل اکانومی کو خود انحصاری کی جانب لے جاتے ہوئے اپنے قدموں پر کھڑا کرنا اور عوام کو پورے منظرنامے میں مشکلات کے گرداب سے نکالنا ہے‘ وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے شعبے وقت کے ساتھ وسیع ہوتے جارہے ہیں ماضی میں سرمایہ کاری سے مراد کارخانہ لگانا یا بڑا کاروبار چلانا ہی لیا جاتا تھا‘ حکومتوں کی جانب سے مراعات و سہولیات صنعت اورزراعت کے شعبوں کیلئے رہتی تھیں‘ وقت کیساتھ سرمایہ کاری کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے رئیل سٹیٹ میڈیکل سروسز‘ تعلیم‘ ٹرانسپورٹ اور متعدد دوسرے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کی جارہی ہے‘ ان شعبوں میں انوسٹمنٹ عوام کیلئے سہولیات کا ذریعہ بن رہی ہے ‘گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی بندش کے بعد روڈ ٹرانسپورٹ پوری کی پوری پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے ‘نجی یونیورسٹیاں پروفیشنل ادارے اور سکول بڑی تعداد میں قائم ہیں پرائیویٹ طبی اداروں میں عوام کی بڑی تعداد علاج کیلئے رجوع کر رہی ہے‘ اسی طرح رئیل سٹیٹ میں بڑی ہاﺅسنگ سکیمیں نجی شعبہ دے رہا ہے کسی بھی ریاست کی اکانومی میں سرمایہ کاری کے حوالے سے نجی شعبے کی خدمات سے انکار ممکن نہیںتاہم اس سیکٹر کو مراعات و سہولیات فراہم کرنے اور سرمایہ کاری محفوظ بنانے کیساتھ ساتھ ضروری ہے کہ اس بات کا پابند بھی بنایا جائے کہ وہ ان مراعات اور سہولیات کا فائدہ اپنے اپنے شعبوں میں صارفین کو بھی منتقل کرے‘ ہر شعبے کو قاعدے قانون کا پابند بھی بنایا جائے جبکہ معیار کو بھی ہر سطح پر یقینی بنایا جائے‘ سرمایہ کاری اور اس سے حاصل ثمرات متقاضی ہیں اس حوالے سے موثر حکمت عملی کے‘ جس میں وفاق اور صوبوں کے متعدد دفاتر سٹیک ہولڈرز کی حیثیت رکھتے ہیں ‘صوبے کی سطح پر وزیر اعلیٰ کے احکامات کا ثمر آور ہونا تمام متعلقہ صوبائی دفاتر کے باہمی رابطوں اور ہر کام کیلئے ٹائم فریم سے جڑا ہوا ہے جس کیلئے ہمہ جہت اور تکنیکی مہارت کی حامل حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔