غیر ملکی مہمان کے ساتھ لیڈی ریڈنگ ہسپتال جا نے کا اتفاق ہوا تو راستے میں طورہ قل بائے کی مسجد آگئی مہمان کو ہر چیز کے بارے میں جا ننے کا بیحد شوق تھا انہوں نے پو چھا یہ نا م پختونوں یا ہند کواں لو گوں کا نہیں ہو سکتا ، اس کی اصلیت کیا ہے ؟ یہ کسی زبان کا نا م ہے ؟ میں نے انہیں ذوالفقار علی بخا ر ی کا واقعہ سنا یا یہ تقسیم سے پہلے کا واقعہ ہے ریڈیو میں ایک بزر گ عالم دین کی تقریر نشر ہونے میں چند منٹ باقی تھے ‘بزرگ نے طنبورہ کی طرف اشارہ کر کے پو چھا یہ کس کی ایجا د ہے ؟بخاری بولے جہاں آپ نے اتنی عمریہ بات جا نے بغیر گذاری ہے بقیہ عمر ب بھی اس کے بغیر ہی گذار دیجئے‘ یہ بات میرے مہمان کے سر کے اوپر سے گذر گئی انہوں نے اپنے سوال کو دہرایا تو میں نے کہا رات کھا نے پر گفتگو ہو گی تو یہ راز بھی کھل جائے گا شام کے بعد محفل جمی تو بات پشاور اور وسطی ایشیا کے درمیان تجا رتی روابط سے ہو تی ہوئی ترک قومیت ، تر ک زبان اور پشاور کی ثقافت پر وسط ایشیائی تر کوں کے اثرات تک پہنچ گئی ‘شاعر نے بھی ایک مصر عہ کہا تھا ” بات چل نکلی ہے اب دیکھئے کہا ں تک پہنچے “ سادہ سی بات یہ تھی کہ حا جی طورہ قل بائے ستر ہویں صدی کا تر ک تا جر تھا اس نے بخارا سے آ کر کا بل میں رفا ہ عامہ کے لئے پل تعمیر کیا جو ان کے نا م سے مو سوم ہے پشاور میں اسی مخیر شخصیت نے کا بلی اور آسا ما ئی دروازوں کے درمیان فصیل شہر سے با ہر مسجد تعمیر کی‘ بیسویں صدی کے سال 1927ءمیںا نگریز آفیسر نے یہاں ہسپتال قائم کیا تو مسجد بھی ہسپتال کا حصہ بن گئی اورپہلے سے زیا دہ مشہور ہوئی ، حا جی طورہ قل بائے کا نا م انگریزی اور ترک ہجوں میں Toraqul Bayلکھا جا تا ہے 1919ءکے انقلا ب روس سے پہلے وسطی ایشیا کے تر کستان سے تا جر وں کا پشاور آنا جا نا معمول کا کام تھا یہ تا جر بخا را ، ثمر قند ، تاشقند ، کا شغر ، یارقند ، ختن اور دیگر شہروں سے روسی ظروف ، تلواریں ، ترکما نی قالین ، تانبے ، چاندی اور کانسی کے برتن ، قراقل ، اشیا ئے ضروریہ ، ریشم وغیرہ لے کر آتے تھے‘ پشاور سے سوتی کپڑے ، چمڑے کی مصنو عات ، گڑ ، قند ، خشک میوہ جا ت اور دیگر سامان تجارت لیکر جا تے تھے پشاور کا سیٹھی خاندان تر کوں کے ساتھ تجا رت کے لئے شہر ت رکھتا تھا شہاب الدین سیٹھی نے وسطی ایشیا کی تجا رت میں آسانی کے لئے کا بل میں بھی اپنے کا روبار کی ایک شاخ کھول کر لین دین میں آسانی پیدا کی ہوئی تھی اس دور میں کا بل اور پشاور کے دونوں شہر وسطی اور جنو بی ایشیا کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے انقلا ب کے وقت بعض پشاور ی تاجر بخا را ، تاشقند اور ثمر قند میں تھے وہ واپس نہ آسکے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیور سٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد انور خان نے وسطی ایشیا کا دورہ کیا تو وہاں پشاوری تاجروں کے خاندانوں سے ملے اپنے مشا ہدات انہوں نے سہ ما ہی جریدہ سنٹرل ایشیا میں شائع کرائے اسی طرح بخا را ، خوجند اور کا شغر کے تاجر پشاور میں بس گئے ان کی نسلیں اب بھی پشاور کے نواح میں رہتی ہیں بلکہ ان میں چند خاندان چترال اور پنڈی میں بھی آباد ہوئے ، پشاور شہر کی معلوم تاریخ چوتھی صدی قبل از مسیح سے شروع ہوتی ہے ، دوسری صدی عیسوی میں وادی پشاور کا علا قہ پشکلاوتی (چار سدہ ) گندھا راتہذیب اور راجہ کنشکا کی حکومت کا مر کز رہا ساتویں صدی عیسوی میں کشان سلطنت نے دار الخلا فہ پشاور منتقل کیا مشہور سیا حوں نے اس دور میں قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے ، قریب ترین تاریخ کا ذکر کیا جا ئے تو بات 1747ءسے شروع ہوتی ہے جب احمد شاہ ابدالی نے پشاور کو دارالسّلطنت بنا یا درانی سلطنت کے بعد سکھوں نے 1834ءمیں پشاور پر قبضہ کر کے قلعہ با لا حصار کو گرا کر دوبارہ تعمیر کیا۔ 1849ءمیں انگریزوں نے قلعہ بالا حصار کی بیرونی فصیل کو نئے سرے سے تعمیر کر کے مو جو دہ شکل دیدی ، گویا پشاور ہر دور میں اہمیت کا حا مل رہا یہاں وسطی ایشیا کے ترک تاجروں کے آثار مو جو د ہیں جن میں کا بلی دروازے کے با ہر حا جی طورہ قل بائے کی مسجد سب سے نما یاں ہے چائنہ پا کستان اکنا مک کوریڈور کے منصو بوں کو اگر پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا تو پشاور ایک بار پھر وسطی ایشیا کے لئے اہمیت اختیار کرلے گا ۔