قصہ خوا نی کی عظمت رفتہ 

ہم ہر روز ان خبروں کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں جن میں پشاور کے تاریخی مقام قصہ خوانی بازار کی تزئین وآرائش اور اس کی عظمت رفتہ کو بحا ل کرنے کے لئے حکومت کے اعلا نات اور عملی اقدامات کا ذکر ہوتا ہے ، بحا لی کے کام کی تصویریں شیئر کی جا تی ہیں ، کا بلی چوک ، افغان بلڈنگ ، یا د گارشہدا ، محلہ جنگی اور ڈھکی نعلبندی کی گلیوں کو دکھا یا جا تا ہے یہ وہ مقا مات ہیں جن کے ساتھ پشوریوں کی یا دیں وابستہ ہیں ‘اگر یادوں کی بات کی جا ئے تو صرف پشوریوں کی نہیں بلکہ انگریزوں کی یا دیں بھی وابستہ ہیں‘ مشہور مورخ آرنلڈ ٹوائن بی (A.Toyanbee) نے 1961ءمیں اپنے دورہ پشاور کا ذکر کر تے ہوئے قصہ خوانی بازار کے چائے خانوں کی خوب صو رت تصویر کشی اپنے الفاظ میں کی ۔انہوں نے ترکستانی سما وار کا ذکر کیا ، گر دنر کے خو ب صورت چائنک پر جستی پیوند کاذکر کیا اور گردنر کے قیمتی پیا لوں میں چائے یا قہوہ پیتے ہوئے پشوریوں کا ذکر کیا ، انہوں نے پشاور کے مہمندی چائے خانوں کا نا م لیتے ہوئے قصہ خوانی بازار میں یاد گار شہدا کے قریب واقع بڑے چائے خا نے کی تصویر بھی شائع کی جس میں لو گوں کے سامنے فرش پر چائے کے ساتھ تندور کی روٹی ، بالائی کی پلیٹ بھی رکھی ہوئی ہے‘ لو گ ناشتہ کر تے ہوئے اخباربھی پڑھ رہے ہیں‘ ٹوائن بی لکھتا ہے کہ ایک آد می اخبار کی شہ سر خیاں پڑھتا ہے باقی لو گ سنتے ہیں اور رد عمل دیتے ہیں جس میں غم یا خو شی کے جذ بات کو انگریزبھی محسوس کر سکتا ہے‘ قصہ خوانی کے قہوہ خا نوں کی یہ پرانی روایت ہے ‘دوسری جنگ عظیم کے دوران جارج کننگھم پشاور کا گورنر تھا اُس کے پاس سرکاری خبر رسان اداروں کی رپورٹیں آتی تھیں اُس زما نے میں امن عامہ کا قیا م سول انتظا میہ کی ذمہ داری تھی‘ پو لیس میں ایک شعبہ ہوتا تھا اس کو سپیشل برانچ کہتے تھے‘ اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ بازار ، مساجد ، حجروں اور دیگر پبلک مقامات پر ہو نے والے اہم واقعات پر ڈائری لکھ کر حکام کو پیش کرے ، یہ ڈائری ما تحت آفیسروں کے ذریعے ہر روز صو بائی گورنر کے پا س جا تی تھی ، خبروں اور اطلاعات میں حکومت کی دلچسپی کے معا ملات پر اس ڈائری کو بیحد اہمیت دی جاتی تھی ‘سیا سی کارکنوں اور سما جی رہنماﺅں کی گرفتاریاں اس ڈائری کی بنیا د پر ہوا کر تی تھیں‘ اُس وقت کے ما تحت آفیسروں نے اپنی یا دداشتوں میں لکھا ہے کہ جا رج کننگھم سپیشل برانچ کی ڈائری پر انحصار نہیں کر تے تھے وہ اپنے مخبر وں کو قصہ خوانی بازار جا کر قہوہ خانوں میں ہونے والی غیر رسمی گپ شپ کی رپورٹ لانے کا حکم دیتے تھے ان مخبروں کی رپورٹوں کو اُس نے قصہ خوانی گزٹ کانا م دیا تھا‘ قدیم دفتری ریکارڈ کے آرکائیوز میں یہ رپورٹیں سپیشل برانچ کی ڈائریوں کے ساتھ محفوظ ہیں ، کننگھم قصہ خوانی گزٹ کو سپیشل برانچ کی ڈائری پر اہمیت دیتے ہوئے کہا کر تے تھے کہ سپیشل برانچ اہم رہنماﺅں کی تقریروں کو سن کر ڈائری دیتی ہے جبکہ قصہ خوانی گزٹ میں یہ بات آتی ہے کہ کون سا حکومت مخا لف لیڈر کب اور کہاں تقریر کرے گا، یا کون سا حکومت مخا لف گروہ کیسا پمفلٹ چھپوانے والا ہے‘ یہ پمفلٹ کس پر یس میں چھپے گا اور کہاں تقسیم ہو گا ؟ ہمیں واقعہ رونما ہونے سے پہلے اطلا ع بہم پہنچا تا ہے‘ قیام پا کستان کے بعد بھی جب تک حکومت کی عملداری اور قانون پر عمل در آمد کا نظام قائم رہا ، سپیشل برانچ کی ڈائری کے علا وہ قصہ خوانی گزٹ کا بھی چر چا رہا ، پھر ایسا ہوا کہ رفتہ رفتہ ڈائری بھی غائب ہو گئی ‘قصہ خوانی گزٹ بھی قصہ پارینہ بن گیا ، سینئر اخبار نویس اور ہمارے دوست صلا ح الدین صاحب کے والد گرامی احسان طالب مر حوم غیر رسمی گفتگو میں کہا کر تے تھے کہ قصہ خوانی گزٹ کے نام سے ایک مکمل اخبار لانے کو جی چاہتا ہے مگر جیب اس کی اجا زت نہیں دیتی ، یونس قیا سی مر حوم کا بھی یہی خیال تھا کہ جی سے زیا دہ اہمیت جیب کی ہے ، یہ بات لا ئق تحسین ہے کہ حکومت پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی کی عظمت رفتہ کو بحا ل کر نے پر کام کر رہی ہے ۔