ما حول اور آب و ہوا

5جون کو ہر سال ما حول کا عالمی دن منا یا جا تا ہے تا کہ ما حول کے بارے میں بڑے پیما نے پر آگاہی پھیلا ئی جا ئے اور خا ص و عام کو ما حول کے تحفظ کا شعور دیا جا ئے ہمارے محلے کے میاں جی کی عمر 105سال ہے جبکہ انکے پڑ پو توں میں سے ایک بچہ 11سال کا ہے میاں جی فرماتے ہیں ہم نے بچپن‘ لڑ کپن اور جوا نی میں کبھی ما حول کے تحفظ کا نعرہ نہیں سنا تھا ادھیڑ عمر میں بھی کبھی نہیں سنا کہ ما حول کو تحفظ کی ضرورت ہے اور ماحول کا تحفظ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ان کا پڑ پو تا کہتا ہے ما حول کیا ہوتا ہے میں نے ما حول دیکھا ہی نہیں اب یہ ہماری ذمہ دار ی بنتی ہے کہ بڑے میاں کی حیرت بھی دور کریں اور چھوٹے میاں کے تجسس کا بھی علا ج کریں دراصل بڑے میاں درست کہتے ہیں 1960ء کے عشرے تک کسی نے بھی یہ نہیں سنا تھا کہ گلیشیر پگھل کر ختم ہو رہے ہیں ذرائع ابلا غ میں کبھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ عالمی حدت کا دور آ رہا ہے موسمیاتی تغیر سے نبا تا ت‘ حیوا نات اور انسا نی زندگی کو شدید خطرات لا حق ہیں کسی نے یہ بھی نہیں سنا تھا کہ پر ندوں کی کئی اقسام دنیا سے ختم ہو گئیں جو باقی ہیں وہ بھی چند دنوں کی مہمان ہیں اگر چھوٹا میاں پو چھتا ہے کہ ما حول کسے کہتے ہیں تو وہ حق بجا نب ہے اسکی دنیا روٹی اور سالن سے آگے نہیں بڑھی اس نے کھیل کے سوا کوئی دھندہ 
نہیں دیکھا 11 سال کا بچہ عالمی گاؤں میں ایرے‘ غیرے نتھو خیرے کا نما ئندہ ہے دنیا کی 7 ارب آبادی میں سے 5ارب کو اگر پیٹ بھر کر کھانا ملے تو اس کو آگے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی وہ 11سالہ بچے کی طرح زند گی گذارنے کے قائل ہیں ما حول کی جا مع تعریف کرنیوالے ما ہرین کا کہنا ہے کہ ہوا‘ پا نی اور مٹی ہمارے ما حول کے بنیا دی اجزا ہیں یہ بنیا دی اجزا انسا نی بستیوں کو آباد رکھتے ہیں ہا تھی اور اونٹ سے لیکر زیبرا‘ گینڈ ھا اور چیو نٹی تک تمام جانوروں‘ چرندوں‘ پرندوں‘ درندوں اور کیڑے مکوڑوں کو زند گی کی سہو لیات فراہم کرتے ہیں چیونٹی سے بھی چھوٹی مخلو قات کی ہزاروں قسمیں ہیں جو پانی‘ مٹی اور ہوا سے خوراک حاصل کرتی ہیں ہوا میں زہر پھیل جا ئے‘ زمین کے اندر زہر بھر جا ئے یا پانی زہر آلو د ہو جا ئے تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے سائنسدان کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ایسا ہی ہوا ہے یہ بات اکیسویں صدی آنے 
سے پہلے محسوس کی گئی تھی جون 1972ء میں سویڈن کے شہر سٹاک ہو م میں سائنسدانوں کی ایک کا نفرنس میں ما ہرین نے خبر دار کیا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جا نداروں کی متعدد اقسام کو خطرات لا حق ہیں بعض جا نداروں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں‘ جنگلا ت کا رقبہ گھٹتا جا رہا ہے‘ صحرا زدگی میں اضا فہ ہو رہا ہے گلیشیر پگھلنے والے ہیں اسلئے پوری دنیا کو فکر مند ہو نا چاہئے اور ما حول کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے‘ ما ہرین نے دنیا کی تو جہ چار سائنسی نظر یات کی طرف مبذول کی پہلی بات یہ تھی کہ کار خا نوں اور موٹر گاڑیوں کے انجن سے نکلنے والا دھواں سورج اور زمین کے درمیان فضا ء میں حا ئل اوزون کو روز بروز پتلا کر رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کا در جہ حرارت روز بروز بڑھ رہا ہے‘ دوسری بات یہ تھی کہ کیڑے ما ر ادویات اور مصنوعی کھاد میں جو زہریلا کیمیکل ملا یا جا تا ہے وہ انسانوں‘ چرندوں‘ پرندوں اور کیڑے مکوڑوں سمیت تمام جا نداروں کی خوراک کو زہر آلود کرتا ہے جس سے بیما ریاں جنم لیتی ہیں اور نسلیں ختم ہو رہی ہیں تیسری بات یہ تھی کہ خبر رسانی کیلئے ٹاور لگا کر ان پر جو محدب آئینے چسپاں کئے جا تے ہیں ان آئینوں سے ایٹمی تابکاری کے ذرات پیدا ہو تے ہیں جو مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں چو 
تھی بات یہ تھی کہ پو لی تھین نا می پلا سٹک کے شاپر مارکیٹ سے گھروں میں پہنچتے ہیں گھروں سے یہ گندی نا لیوں کے ذریعے سمندروں تک جاتے ہیں ان شاپروں میں زہر یلا کیمیکل ہے جو خشکی اور سمند ر میں زندہ جا نداروں کیلئے نقصان دہ ہے‘ اگر ان شاپروں میں فروٹ‘ سبزی‘ بیکری‘ روٹی وغیرہ پیک کیا جا ئے تو فوراً زہر آلو د ہو جا تا ہے اسلئے یو رپ اور امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ مما لک میں پلا سٹک شاپنگ بیگز پر پا بندی ہے وہاں کا غذ یا کپڑے کے شا پر استعمال ہو تے ہیں اس سال 2025ء کیلئے یوم ما حول کا مر کزی خیال ”پلا سٹک کی آلود گی سے ما حول کوبچاؤ“ ہے اس دن پلا سٹک کے نقصا نات اور ما حول کی آلو د گی میں پلا سٹکی زہر کے منفی کر دار کو مو ضوع بنایا جائیگا اس دن کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ماحول کی بر بادی کا ذمہ دار کون ہے؟ جوا ب یہ ہے کہ انسان خود اس کا ذمہ دار ہے 80فیصد دھواں کا ر خا نوں اور مشینی انجنوں سے انسان ہی پیدا کرتا ہے‘ بقیہ 20فیصد آلو د گی مختلف ذرائع سے انسا ن اس میں ملا تا ہے پلا سٹک پر پا بندی کا اصل طریقہ یہ ہے کہ پلا سٹک کے کا رخانوں پر پابندی لگائی جا ئے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ بڑوں کی بات درست ہے نصف صدی پہلے ما حول کو ایسے خطرات لا حق نہیں تھے جیسے خطرات آج اکیسویں صدی میں در پیش ہیں۔